بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عورت کا اپنے محرم سے معانقہ کرنا (گلے ملنا)


سوال

 کیا جوان بہن بھائی معانقہ کر سکتے (گلے مل)  ہیں؟ کیا سفر سے واپسی ہو یا کسی غمی و خوشی کے موقع پر جوان بھائی بہن آپس میں گلے لگ کر مل سکتے ہیں؟ اس کے علاوہ جوان بیٹی اپنے والد صاحب کو، ماموں یا چچا کو گلے مل سکتی ہے یا نہیں؟ اگر مل سکتی ہے تو کس طرح سے؟ اگر نہیں مل سکتی تو کیا وجہ؟

جواب

کسی خوشی یا غم کے موقع پر، یا سفر سے واپسی پر  اگر فتنے کا اندیشہ نہ ہو تو  عورت کا اپنے محرم سے گلے ملنا مباح ہے، اگر کسی بھی جانب سے فتنے کا اندیشہ ہو تو اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔

نیز واضح رہے کہ ملاقات کے وقت اصل سنت سلام (یعنی زبان سے السلام علیکم کے الفاظ کہنا) ہے، اور اس کا تتمہ مصافحہ ہے،  اگر کوئی شخص ملاقات کے وقت سنت،  اور سلام کاتتمہ ہونے کی حیثیت سے معانقہ  کرے تو یہ مکروہ ہے، اور اپنی  بیوی یا (شرعی قواعد کے مطابق) اپنی مملوکہ  باندی کے علاوہ کسی اور سے شہوت سے ”معانقہ“  کرنا حرام ہے،  اور نفسانی شہوت کے شائبہ کے بغیر، فرطِ محبت اور جوشِ مسرت کی بنا پر کرلیا تو  یہ مباح ہے، البتہ ہر ملاقات پر معانقہ کرنا سنت نہیں ہے۔

اعلاء السنن میں ہے:

"التقبيل والاعتناق قد يكونان علی وجه التحية، كالسلام والمصافحة، وهما اللذان نهي عنهما في الحديث؛ لأن مجرد لقاء المسلم إنما موجبه التحية فقط، فلما سأل سائل عنهما عند اللقاء فكأنه قال: إذا لقي الرجل أخاه أو صديقه فكيف يحييه؟ أيحييه بالانحناء والتقبيل والالتزام أم بالمصافحة فقط؟ فأجاب رسول الله صلي الله عليه وسلم بأن يحييه بالمصافحة  ولايحييه بالانحناء والتقبيل والاعتناق، فثبت أن التحية بهذه الأمور غير مشروعة، وإنما المشروع هو التحية بالسلام والمصافحة، وهو ما ذهب إليه أئمتنا الثلاثة: أبو حنيفة وأبو يوسف ومحمد، لأن هذه المسالة ذكره محمد في "الجامع الصغير" ونصه علي ما في البناية (4/251): محمد عن يعقوب عن أبي حنيفة قال: أكره أن يقبل الرجل من الرجل فمه أو يده أو شيئاً منه، وأكره المعانقة، ولاأري بالمصافحة بأساً"، وهذا يدل بسياقه على أن التقبيل والمعانقة الذين كرهما أبو حنيفة هما اللذان يكونان على وجه التحية عند اللقاء لا مطلقاً، ويدل أيضاً على أن المسألة مما اتفق عليه الأئمة الثلاثة؛ لأن محمداً لم يذكر الخلاف فيها، وقد يكونان علی وجه الشهوة وهما المكاعمة، والمكامعة التي يعبر عنهما بالفارسية ب"بوس وكنار" وهما لاتجوزان عند أئمتنا الثلاثة؛ لورود النهي عنهما بخصوصهما، وبالأدلة الأخرى بعمومها، وقد يكونان لهيجان المحبة والشوق والاستحسان  عند اللقاء وغيره من غير شائبة الشهوة، وهما مباحان باتفاق أئمتنا الثلاثة؛ لثبوتهما عن النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه؛ ولعدم مانع شرعي عنه، هذا هو التحقيق".

( إعلاء السنن 17/418، کتاب الحظر والإباحة، باب كراهة تقبيل الرجل والتزامه أخاه علي وجه التحية، إدارة القرآن والعلوم الإسلامية)


فتوی نمبر : 144203201539

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں