بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

"تو ہوگی حرام کی" کے الفاظ سے طلاق


سوال

ایک دفعہ میری بیوی نے مجھے کسی بات پر حرامی کہا تو میں نے جواب میں  اس کو ’’تو ہو گی حرام کی‘‘  کہا، میرے مذکورہ جملہ سے کوئی طلاق واقع ہوگئی ہے یا نہیں؟ میں نے سنا ہے کہ حرام لفظ سے بلانیت طلاق واقع ہوجاتی ہے، جب کہ میری مذکورہ جملہ سے کوئی طلاق کی نیت نہیں تھی، میں نے بطور گالی کے کہا تھا۔

جواب

واضح رہے کہ لفط حرام  طلاق کے الفاظ میں سے ہے، نہ کہ لفظ حرامی۔ حرامی (غیر ثابت النسب) کا لفظ   عرف میں بطورِ گالی ہی شمار ہوتا ہے، یہ طلاق کے الفاظ میں سے نہیں ہے، اسی طرح سائل نے اپنی بیوی کو جوکہا ’’تو ہوگی حرام کی‘‘، اس جملہ میں ’’حرام کی‘‘ لفظ حرامی ہی کی ایک تعبیر ہے؛ لہذا اس جملے سے سائل کی بیوی پر کوئی طلاق وقع نہیں ہوئی ہے۔

وفي الدر المختار وحاشية ابن عابدين :

"شرعًا (رفع قيد النكاح في الحال) بالبائن (أو المآل) بالرجعي (بلفظ مخصوص) هو ما اشتمل على الطلاق".

(رد المحتار3/ 226ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144202200369

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں