بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تَن خواہ دار ملازم کا ضروت کے وقت زکات لینا


سوال

جو شخص ملازم  ہو  اور  چالیس ہزار تنخواہ  لیتا ہو، مگر اس کو کچھ مشکلات اور تنگی آئی ہو، کیا وہ زکوٰۃ  لے سکتا ہے؟

جواب

بصورتِ مسئولہ اگر اس شخص کی تنخواہ ماہانہ اور  ضروری اخراجات میں صرف ہوجاتی ہے، اور اس کی ملکیت میں ضرورت و استعمال سے زائد اتنا مال یا سامان نہیں ہے  جس کی مالیت  ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر  یا اس سے زیادہ ہو تو وہ زکات کا مستحق ہے، لہٰذا بوقتِ ضرورت، بقدرِ ضرورت وہ زکات لے سکتا ہے۔

البحرالرائق (258/2):

"والأولى أن يفسر الفقير بمن له ما دون النصاب كما في النقاية أخذًا من قولهم يجوز دفع الزكاة إلى من يملك ما دون النصاب أو قدر نصاب غير تام، وهو مستغرق في الحاجة، ولا خلاف في أنهما صنفان هو الصحيح."

وفیہ ایضا (259/2):

"وفي الخانية: والذي له دين على إنسان إذا احتيج إلى النفقة يجوز له أن يأخذ من الزكاة قدر كفايته إلى حلول الأجل، وفي الخانية والذي له دين على إنسان إذا احتيج إلى النفقة يجوز له أن يأخذ من الزكاة قدر كفايته إلى حلول الأجل."

فتاوی ہندیہ میں ہے(189/1):

"لایجوز دفع الزکاة إلی من یملك نصاباً أي مال کان دنانیر أو دراهم أو سوائم أو عروضاً للتجارة أو لغیر التجارة فاضلاً عن حاجته في جمیع السنة، هکذا في الزاهدي. والشرط أن یکون فاضلاً عن حاجته الأصلیة، وهي مسکنه، وأثاث مسکنه وثیابه وخادمه، ومرکبه وسلاحه، ولایشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزکاة لا الحرمان،کذافي الکافي."

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205201182

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں