میں ایک سول انجینئر ہو ں،میرے پاس ٹھیکہ دار آتے ہیں اور کہتےہیں کہ فلاں تعمیری کام کا ٹھیکہ مجھے دلوادو، میں آپ کو دس ہزار کمیشن دوں گا، مثلًا پلستر یا اور کوئی کام۔کیا یہ کمیشن لینا میرے لیے جائز ہے یا نہیں؟ کیا میں اپنی طرف سے کمیشن مقرر کرسکتا ہوں؟
صورتِ مسئولہ میں اگرآپ کے فرائض میں ٹھیکہ دینا ہوتو آپ اس پر کمیشن وصول نہیں کرسکتے ،لیکن اگر آپ کے فرائض میں ٹھیکہ دینا نہ ہو تو اگر آپ کسی بھی کمپنی سے رابطہ کر کے ٹھیکہ دار کو ٹھیکہ دلواتے ہیں اور اس میں اپنا معتد بہ کردار ادا کرتے ہیں تو آپ کی حیثیت کمیشن ایجنٹ کی ہے،آپ کے لیےایسی صورت میں مقررہ کمیشن لینا جائز ہو گا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"و لايجوز أخذ المال ليفعل الواجب."
(كتاب القضاء، مطلب في الكلام على الرشوة و الهدية، 5/ 362،ط:سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجاً ينسج له ثياباً في كل سنة."
(كتاب الإجارة،مطلب في استئجار الماء مع القناة ...،6/ 63،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144307101288
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن