بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کی نیت کے بغیر اب تو آپ آزاد ہو کہنے کا حکم


سوال

 اگر شوہر اپنی بیوی سے واٹس ایپ میسج پر  بات کرتے ہوئے یہ کہے کہ اب تو آپ آزاد ہو ،آپ جس سے چاہو  بات کرو گی،  آپ  اپنا کام خود نکالتی ہو، مجھ سے پوچھتی نہیں ہو ،  جہاں جاتی  ہو مجھ سے پوچھے بغیرجاتی ہو، اس سیاق میں اگر شوہر نے  بیوی سے کہا کہ ابھی آپ آزاد ہو، لیکن اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ شوہر کی زندگی سے تم آزاد ہو ، بلکہ سیاق و سباق بھی ایسا نہیں ہے جو لڑائی جھگڑے والا ہو یا پھر  طلاق کے مسئلے پر بات ہو رہی ہو یا پھر غصے والا مسئلہ ہو ایسا نہیں ہے، بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ آپ تو مجھ سے پوچھتی نہیں ہو ،آپ جس کو چاہو فون کر دیتی ہو ، حدود میں رہ کر  بات کرنا بھی  شوہر کو پسند نہیں تو شوہر نے یہ لفظ کہے کہ اب تو آپ آزاد ہو، لیکن اس کا یہ مقصد نہیں تھا کہ بھائی آپ میری زندگی سے آزاد ہو یا پھر  اس کے دل میں طلاق کی بھی نیت نہیں تھی تواس سلسلے میں کیا اس سے طلاق واقع ہو جائے گی یا  نہیں ہوگی؟ جب کہ  شوہر کی نیت بالکل بھی یہ نہیں تھی کہ اس کو طلاق پڑ جائے ؟ راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ لفظِ آزاد وقوعِ طلاق کے اعتبار سے صریح ہے،  یعنی لفظِ  آزاد سے دی گئی طلاق نیت کے بغیر بھی  واقع ہو جاتی ہے،البتہ صورت مسئولہ میں سوال میں مذکور عبارت کے ساتھ اگر " آپ آزاد ہو " کہا ہے، تو اس  کی سیاق وسباق کی بنا پر طلاق واقع نہیں ہوئی، تاہم اس طرح کی گفتگو  اور الفاظ کے استعمال میں بے حد احتیاط کی ضرورت ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے:

"(قوله: ما لم يستعمل إلا فيه) أي غالباً، كما يفيده كلام البحر. وعرفه في التحرير بما يثبت حكمه الشرعي بلا نية، وأراد بما اللفظ أو ما يقوم مقامه من الكتابة المستبينة أو الإشارة المفهومة فلا يقع بإلقاء ثلاثة أحجار إليها أو بأمرها بحلق شعرها وإن اعتقد الإلقاء والحلق طلاقاً كما قدمناه؛ لأن ركن الطلاق اللفظ أو ما يقوم مقامه مما ذكر، كما مر (قوله: ولو بالفارسية) فما لايستعمل فيها إلا في الطلاق فهو صريح يقع بلا نية".

(كتاب الطلاق، باب صريح الطلاق، ج: ۳، صفحہ: ۲۴۷، ط: ایچ، ایم، سعید)

وفیہ ایضاً:

"(قوله: فيقع بلا نية؛ للعرف) أي فيكون صريحاً لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن؛ لأن الصريح قد يقع به البائن، كما مر، لكن في وقوع البائن به بحث سنذكره فيباب الكنايات، وإنما كان ما ذكره صريحاً؛ لأنه صار فاشياً في العرف في استعماله في الطلاق، لايعرفون من صيغ الطلاق غيره، ولا يحلف به إلا الرجال، وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لايستعمل عرفاً إلا فيه من أي لغة كانت، وهذا في عرف زماننا كذلك، فوجب اعتباره صريحاً، كما أفتى المتأخرون في "أنت علي حرام" بأنه طلاق بائن؛ للعرف بلا نية، مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية".

(كتاب الطلاق، باب صريح الطلاق، ج: ۳، صفحہ:۲۵۲، ط: ایچ، ایم، سعید) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503101047

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں