بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شیئر کے کاروبار کے جواز اور فاریکس ٹریڈ کے کاروبارکی عدم جوازمیں فرق کی وجہ


سوال

شیئر  کا کاروبار اگر حلال ہے تو فارکس  ٹریڈ  حرام کیوں ہے؟ وضاحت کریں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں شیئر زکا کاروبار  شرائط کے ساتھ جائز ہے، اور شرائط کے باوجود  احتیاطاً شرائط پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے کاروبار نہ کرنے کا  ہی مشورہ دیا جاتا ہے،   جب کہ فاریکس ٹریڈز میں  شریعت کی مسلمہ شرائط کی سِرےسے ہی پاسداری نہیں کی جاتی، مثلاً: بیع صرف میں قبضہ ضروری ہے، جب کہ دونوں جانب یا کسی ایک جانب  سے ادھار ناجائز ہے، شرط فاسد کی وجہ سے بیع فاسد ہو جاتی ہے، نیز فاریکس کاروبار میں  خریدار  فریقِ مخالف کی رضامندی کے بغیر اقالہ کر سکتا ہے، جب کہ شریعت میں اقالہ کے لیے فریقین کی رضامندی ضروری ہے، دونوں کا  تقابل اور فرق ذیل کی تفصیل میں ملاحظہ فرمائیں:

اسٹاک ایکسچینج میں شیئرز کے کاروبار کا حکم:

اسٹاک ایکسچینج میں شیئرز کا کاروبار چند شرائط کے ساتھ جائز ہے۔

1- جس کمپنی کے شیئرز کی خرید و فروخت کی جارہی ہو، خارج میں اس کمپنی کا وجود ہو، صرف کاغذی طور پر رجسٹرڈ نہ ہو اور نہ ہی اس کمپنی کے کل اثاثے نقد کی شکل میں ہوں، بلکہ اس کمپنی کی ملکیت میں جامد اثاثے بھی موجود ہوں۔

2- کمپنی کا کل یا کم از کم اکثر سرمایہ حلال ہو۔

3- کمپنی کا اصل کاروبار جائز ہو، حرام اشیاء کے کاروبار پر مشتمل نہ ہو۔

4- شیئرز کی خرید و فروخت میں، خرید و فروخت کی تمام شرائط کی پابندی ہو۔

5- حاصل شدہ منافع کل کا کل شیئرز ہولڈرز میں تقسیم کیا جاتا ہو، (احتیاطی) ریزرو کے طور پر نفع کا کچھ حصہ محفوظ نہ کیا جاتا ہو۔

6- شیئرز کی خرید و فروخت کے دوران بالواسطہ یا بلاواسطہ سود اور جوے کے کسی معاہدے کا حصہ بننے سے احتراز کیا جاتا ہو،اگر شیئرز کے کاروبار میں ان شرائط کی رعایت رکھی جائے تو یہ کاروبار جائز ہے، ورنہ نہیں، بہرصورت بہتر یہی ہے کہ اس کاروبار سے اجتناب کیا جائے، اس لیے کہ مارکیٹ میں ان تمام شرائط کے ساتھ شیئرز کا کاروبار بہت مشکل ہے، اس لیے اجتناب کا مشورہ دیا جاتا ہے۔

فاریکس ٹریڈ کے کاروبار کا حکم:

فاریکس (forex) کے نام سے بین الاقوامی سطح پرجوکاروبار رائج ہے،اس کاروبار میں سونا، چاندی، کرنسی،کپاس، گندم، گیس، خام تیل،جانور اور دیگر بہت سی اشیاء کی خرید و فروخت ہوتی ہے۔

ہمارے علم کے مطابق "فاریکس ٹریڈنگ" کے اس وقت جتنے طریقے رائج ہیں  وہ  شرعی اصولوں کی مکمل رعایت نہ ہونے اور شرعی سقم پائے جانے کی وجہ سے ناجائز ہیں،  وہ شرعی خرابیاں درج ذیل ہیں:

(1)  کرنسی کی بیع شرعاً "بیعِ صرف" ہے، جس  میں بدلین پر مجلس میں قبضہ ضروری ہے جب کہ دونوں جانب سے یا کسی ایک جانب سے ادھار ناجائز ہے،لہذا اسپاٹ ٹریڈ ہو یا فیوچر ٹریڈ ،ایسے تمام سودے ناجائز ہیں  جن میں کرنسی کی خریدوفروخت ادھار ہوتی ہے،  یا نقد ہوتی ہے، مگر عقد کے دونوں فریق  یا کوئی ایک فریق اپنے حق پر قبضہ نہیں کرتا ،الحاصل تقابض (جانبین سے قبضہ) نہ پائےجانے کی وجہ سے ایسے سودے شرعاً فاسد ہوں گے اور نفع حلال نہ ہوگا۔

(2) مسلم (طے شدہ) اصول ہے کہ بیع شرطِ فاسد  سے فاسد ہو جاتی ہے، "فاریکس" میں شرط فاسد   لگائی جاتی ہے، مثلاً swaps( بیع بشرط الاقالہ) میں یہ شرط لگانا کہ ایک مقررہ مدت کے بعد بیع کو  ختم کیا جائے گا حال آں کہ بیع تام ہو جانے کے بعد لازم ہوجاتی ہے اور جانبین کا اختیار ختم ہو جاتا ہے۔

(3) نیز Options میں خریدار کو یہ حق دینا کہ وہ اپنی بیع کو فریقِ مخالف کی رضا مندی کے بغیر بھی "اقالہ" کرسکتا ہے۔ یہ بھی شرطِ فاسد ہے، کیوں کہ "اقالہ" میں جانبین کی رضامندی شرط  ہوتی ہے۔

(4) فیوچر سیل کی جو صورت اوپر بیان ہوئی وہ بیع ناجائز ہے؛ کیوں کہ  بیع  کا فوری ہوناضروری ہے ،مستقبل کی تاریخ پر خریدوفروخت ناجائز ہے۔

(5) اس طریقہ کاروبار میں ایک قباحت "بیع قبل القبض" کی بھی ہے؛ کیوں کہ ستر ،اسی فی صد  لوگ اس مارکیٹ میں خریداری محض کرنسی ریٹ کےاتارچڑھاؤ کے ذریعہ نفع حاصل کرنے کےلیے کرتے ہیں، ان کا مقصد کرنسی حاصل کرنا نہیں ہوتا؛ لہذا اکثر خریدارکرنسی کا قبضہ حاصل نہیں کرتے اور آگے بیچ دیتے ہیں۔

کرنسی کے علاوہ دھاتوں اور اجناس کی بیع اگر چہ بیعِ صرف  نہیں ہوتی اور اس وجہ سے  اس میں تقابض بھی شرط نہیں، لیکن   اس میں "بیع قبل القبض "(قبضہ سے پہلے فروخت کرنا)، "بیع مضاف الی المستقبل"(مستقبل کی بیع)  اوردیگر وہ شروطِ فاسدہ پائی جاتی ہیں جن کا اوپر بیان ہوا ، نیز  اس بیع میں  بروکر کی  جانب سے یہ دھوکا بھی ہے کہ صارف جس مبیع کو محض بیعانہ دے کر اپنی ملکیت سمجھتا ہے اور اس کی قیمت بڑھ جانے سے نفع بھی کماتا ہے اگر اس میں نقصان ہو جائَے تو  بروکر کو  اس پورے سودے کو ختم کرنے کا اختیار ہوتا ہے،جب کہ شرعاً بروکر  کو اپنے عمل کی اجرت وصول کر لینے کے  بعد سودے میں کوئی حق اوراختیار نہیں ہوتا اوراگر کسی شخص نے کوئی چیز خریدی ہے تو اب اس کانفع ونقصان اس کے ذمہ ہے ،نقصان دیکھ کر وہ سودے کو منسوخ  نہیں کرسکتا جب تک کہ دوسرے فریق کی رضامندی نہ ہو۔ 

مذکورہ خرابیوں کی بنیاد پر فاریکس ٹریڈنگ کے ذریعہ پیسہ کمانا جائز نہیں ہے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100236

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں