بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا شرعی حکم


سوال

ٹیسٹ ٹیوب بے بی جائز ہے یا نہیں ؟اور اس کا  کیا حکم  ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اولاد  کا حصول نعمتِ خداوندی  ہے ، لیکن اللہ تعالی کے ہاں طے شدہ مقدر کے مطابق ہے، اس نعمت کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ نے  فطری اور جائز طریقے کو اختیار کرنے کا حکم  دیا ہے،      ٹیسٹ  ٹیوب  بے بی کے ذریعےاولاد کی پیدائش غیرفطری طریقہ ہےٹیسٹ ٹیوب بے بی کی مختلف صورتیں ہیں، جس میں سے بنیادی تین صورتیں ہیں۔

(1)اجنبی مرد کے مادہ منویہ اور اجنبیہ   عورت کے بیضہ کے اختلاط سے تیار شدہ ٹیسٹ ٹیوب۔ (2) میاں بیوی  کے مادہ تولیدی  کی بیرونی  طور پراختلاط  سے تیار شدہ ٹیسٹ ٹیوب  بے بی کو رحم  مستعار   ( یعنی کسی  اجنبیہ عورت کے  رحم)   میں داخل کرکے اس میں  بقیہ افزائش  کے بعد تولید ۔(3) شوہر کے مادہ تولید کو خود اسی  کی بیوی کے رحم میں داخل کرنا یامیاں بیوی  کے مادہ تولید  کا بیرونی طور پر اختلاط سے  تیار شدہ ٹیسٹ ٹیوب بے بی کو اسی بیوی کے رحم  میں داخل  کرکے اس میں بقیہ  افزائش کے بعد تولید۔

 ان تین صورتوں میں   سے پہلی  دو صورتیں  اختیار کرنا  توبالکل جائز نہیں  ہے، البتہ تیسری صورت  اگر کسی مستند ڈاکٹر سے ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا طریقہ کار معلوم کرکے شوہر  اپنا مادہ منویہ خود،  یا بیوی اپنے شوہر کا مادہ منویہ اپنے  رحم میں داخل کرے اور اس میں مادہ منویہ نکالتے اور داخل کرتے وقت کسی تیسرے فرد کا بالکل عمل دخل نہ ہو (یعنی کسی مرحلے میں بھی شوہر یا بیوی میں سے کسی کا ستر  کسی غيرمرد یا عورت کے سامنے نہ کھلے، نہ ہی  چھوئے) تو اس کی گنجائش ہے۔

قرآنِ کریم میں ہے:

لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-یَخْلُقُ مَا یَشَآءُؕ-یَهَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ اِنَاثًا وَّ یَهَبُ لِمَنْ یَّشَآءُ الذُّكُوْرَ(49)اَوْ یُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَّ اِنَاثًاۚ-وَ یَجْعَلُ مَنْ یَّشَآءُ عَقِیْمًاؕ-اِنَّهٗ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ(50)

ترجمہ:الله تعالیٰ ہی کی ہے سلطنت آسمان اور زمین کی  وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے بیٹیاں عطا فرماتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بیٹا عطا فرماتا ہے۔یا ان کو جمع کر دیتا ہے بیٹے بھی اور بیٹیاں بھی اور جس کو چاہے بےاولاد رکھتا ہے بےشک وہ بڑا جاننے والا بڑی قدرت والا ہے۔(بیان القرآن)

فتاوی شامی میں ہے:

"وقال في الجوهرة: إذا كان المرض في سائر بدنها غير الفرج يجوز النظر إليه عند الدواء، لأنه موضع ضرورة، وإن كان في موضع الفرج، فينبغي أن يعلم امرأة تداويها فإن لم توجد وخافوا عليها أن تهلك أو يصيبها وجع لا تحتمله يستروا منها كل شيء إلا موضع العلة ثم يداويها الرجل ويغض بصره ما استطاع إلا عن موضع الجرح."

(کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی النظر والمس،ج:6،ص:371،سعید)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"ذکر شمس الأیمة الحلواني رحمه اللہ تعالی في شرح کتاب الصوم أن الحقنة إنما تجوز عند الضرورة، وإذا لم یکن ثمة ضرورة ولکن فیھا منفعة ظاھرة بأن یتقوی بسببھا علی الجماع لا یحل عندنا … کذا فی الذخیرة."

(کتاب الکراہية،الباب التاسع فی اللبس ۔۔۔،ج:5،ص:330،دارالفکر)

بدائع الصنائع ميں ہے:

"ولا یجوز لھا أن تنظر ما بین سرتھا إلی الرکبة إلا عند الضرورة، بأن کانت قابلة فلا بأس لھا أن تنظر إلی الفرج عند الولادة، وکذا لا بأس أن تنظر إلیہ لمعرفة البکارة في امرأة العنین، والجاریة المشتراة علی شرط البکارة إذا اختصما، وکذا إذا کان بھا جرح أو قرح في موضع لا یحل للرجال النظر إلیہ فلا بأس أن تداویھا، إذا علمت المداومة، فإن تعلم تتعلم ثم تداویھا، فإن توجد امرأة تعلم المداومة ولا امرأة تتعلم وخیف علیھا الھلاک أو بلاء أو وجع لا تحملہ یداویھا الرجل، لکن لا یکشف منھا إلا موضع الجرح ویغض بصرہ مااستطاع."

(کتاب الاستحسان،ج: 6،ص:499، ط: دارالکتب العلمیة)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال: میری شادی کو بارہ برس گزر گئے، میری منی میں جراثیم مردہ پائے گئے ہیں، اس لیے بچہ پیدا نہیں ہوتا ہے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ جس طرح ٹیوب سے مویشی کو حمل کرایا جاتا ہے، اسی طرح تم اپنی عورت کو حاملہ کرالو، یہ صورت جائز ہے یا نہیں؟

الجواب: عورت کو اس طرح گھوڑی بناکر اولاد حاصل کرنا  ہر گز جائز نہیں، ڈاکٹروں اور حکیموں سے اپنا علاج کرائیں، اور حق تعالی سے دعاء کریں۔"

(کتاب الحظر و الاباحۃ، باب التداوی والمعالجۃ، حمل اسقاطِ حمل اور موانعِ حمل کا بیان، ج:18، ص:324،   ط: ادارۃ الفاروق کراچی)

احسن الفتاویٰ میں ہے:

"سوال: توالد وتناسل کے طریقِ جدید " ٹیسٹ ٹیوب بے بی" کا شرعاً کیا حکم ہے؟

الجواب باسم ملہم الصواب

عورت کی شرمگاہ یا رحم میں کوئی ایسا مرض ہو جو جسمانی تکلیف واذیت کا باعث ہو تو اس کا علاج طبیبہ سے کروانا جائز ہے، مرد طبیب سے علاج کروانا جائز نہیں، البتہ اگر مرض مہلک یا ناقابلِ برداشت ہو اور طبیبہ میسر نہ ہو تو مرد طبیب سے علاج کروانا جائز ہے۔

ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے طریق کار میں کسی ایسے مرض کا علاج نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے کسی جسمانی تکلیف میں ابتلاء ہو، یہ دفع مضرت بدنیہ نہیں بلکہ جلب منفعت ہے، اس لیے یہ عمل لیڈی ڈاکٹر سے بھی کروانا جائز نہیں، مرد ڈاکٹر سے کروانا انتہائی بے دینی کے علاوہ ایسی بے غیرتی و بےشرمی بھی ہے جس کے تصور سےبھی انسانیت کو سوں دور بھاگتی ہے، اللہ تعالی کو ناراض کرکے جو اولاد حاصل کی گئی وہ وبال ہی بنے گی۔"

(کتاب الحظر والاباحۃ، متفرقات الحظر والاِ باحۃ، ج8،ص215،  ط:سعید)

فقط واللہ اَعلم


فتوی نمبر : 144503101679

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں