بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تجارت ورہائش کی نیت سے خریدے گئے پلاٹوں پر زکوۃ کا حکم


سوال

میں نے چار پلاٹ خریدے، تین کو بیچ کر آ نے والی آمدنی سے چوتھے پر امید ہے  انشاء اللہ مکان بنا پاؤ ں گا، میرے لیے زکوٰۃ کے بارےمیں کیا حکم ہوگا ؟  جب کہ میرے پاس ادائیگی کے لیے رقم بھی نہیں ہے!

جواب

بصورتِ مسئولہ  مذکورہ چار پلاٹوں میں سے جو تین پلاٹ تجارت کے نیت سے خریدے گئے ہیں تو سال پورا ہونے پر حسبِ شرائط زکوۃ  ان تینوں پلاٹوں کی قیمت فروخت پر زکوۃ لازم ہے، یعنی سائل اگر صاحبِ نصاب ہے تو دیگر اموالِ زکوۃ  (سونا، چاندی، نقدی، مالِ تجارت ) کی زکوۃ ادا کرتے وقت مذکورہ پلاٹوں کی قیمت فروخت پر ڈھائی فیصد زکوۃ لازم ہے، اگر سائل پہلے سے صاحبِ نصاب نہیں  تھا تو  سال پورا ہونے پر  چالیسواں حصہ یعنی ڈھائی فیصد زکوۃ دینا ہوگا، باقی سائل پر زکوۃ واجب ہونے کے بعد اگر زکوۃ کی ادائیگی کے  لیے فی الحال رقم نہیں ہے تو کسی سے قرضہ لے کر بھی زکوۃ ادا کرسکتا ہے، اسی طرح زکوۃ کی واجب مقدار نوٹ کرکے تھوڑی تھوڑی کرکے بھی ادا کرسکتاہے، نیز یہ بھی اختیار ہے کہ مذکورہ پلاٹوں کو فروخت کرنے کے بعد مجموعی قیمت میں سے واجب شدہ  زکوۃ  کو ادا کیا جائے، البتہ اس صورت میں اگر پلاٹ کئی سال کے بعد فروخت کیے گئے تو گزشتہ تمام سالوں کی زکوۃ بھی ادا کرنی ہوگی، نیز جو پلاٹ رہائش کی نیت سے خریدا گیا ہے اس پر زکوۃ  نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"إذا أمسكه لينفق منه كل ما يحتاجه فحال الحول، وقد بقي معه منه نصاب فإنه يزكي ذلك الباقي، وإن كان قصده الإنفاق منه أيضا في المستقبل لعدم استحقاق صرفه إلى حوائجه الأصلية وقت حولان الحول، بخلاف ما إذا حال الحول وهو مستحق الصرف إليها، لكن يحتاج إلى الفرق بين هذا، وبين ما حال الحول عليه، وهو محتاج منه إلى أداء دين." 

(كتاب الزكوة، ج:1، ص:262، ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144209200083

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں