میں نے اپریل 2023 میں اپنی بیوی کو کہا کہ میں نے تجھے ایک طلاق دی، اس کے ایک دو دن بعد ہم نے رجوع کر لیا تھا، اس کے بعد دوسری مرتبہ اکتوبر 2023 میں میں نے اپنی بیوی کو کہا: میں ایک طلاق دے چکا ہوں، میں نے دوسری دی اور میں نے تیسری طلاق بھی دی۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ کتنی طلاقیں واقع ہوئیں؟ رجوع کی کوئی صورت ہے؟ اب میاں بیوی علیحدہ رہ رہے ہیں۔
صورتِ مسئولہ میں جب اپریل 2023 میں آپ نے اپنی بیوی کو پہلی طلاق دی، پھر اکتوبر میں دوسری اور تیسری طلاق بھی دے دی تو ایسی صورت میں مجموعی طور پر آپ کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہو گئیں، اب ساتھ رہنا جائز نہیں، رجوع بھی نہیں ہو سکتا اور دوبارہ نکاح کرنا بھی جائز نہیں۔
اب مطلقہ عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہوگی۔ دوسرا شوہر ازدواجی تعلقات کے بعد اگر طلاق دے دے تو اس کی عدت گزار کر اپنے پہلے شوہر (سائل) سے دوبارہ نکاح کر سکتی ہے، اس کے بغیر دونوں کا آپس میں نکاح کر نا اور ساتھ رہنا شرعاً جائز نہیں۔
قرآن کریم میں ارشادباری تعالی ہے:
"الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۔۔۔ فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىَ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ "(البقرة: (229.230
" وہ طلاق دو مرتبہ (کی )ہے ، پھر خواہ رکھ لینا قاعدے کے موافق، خواہ چھوڑدینا خوش عنوانی کے ساتھ ... پھر اگر کوئی (تیسری) طلاق دے دے عورت کو تو پھر وہ اس کے لئے حلال نہ رہے گی اس کے بعد یہاں تک کہ وہ اس کے سوا ایک اور خاوند کے ساتھ (عدت کے بعد) نکاح کرے۔" ) ترجمہ از بیان القرآن)
حدیث مبارک میں ہے:
"عن عائشة أن رجلا طلق امرأته ثلاثا فتزوجت فطلق فسئل النبي صلى الله عليه وسلم أتحل للأول قال: لا حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول."
(صحيح البخاری ،كتاب الطلاق ، باب من أجاز طلاق الثلاث ، 2/ 300 ، ط : رحمانية)
ترجمہ: "حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں، عورت نے دوسری جگہ نکاح کیا اور دوسرے شوہر نے بھی طلاق دے دی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا یہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہوگئی ہے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں! یہاں تک کہ دوسرا شوہر بھی اس کی لذت چکھ لے جیساکہ پہلے شوہر نے چکھی ہے۔"
فتاوی عالمگیری میں ہے :
"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير ويشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل وهو التقاء الختانين هكذا في العيني شرح الكنز."
(کتاب الطلاق ، الباب السادس ، فصل فیما تحل به الطلقة ، 1/ 473 ، ط : رشیدیة)
خلاصۃ الفتاوی میں ہے:
"و في الفتاوي: رجل قال لامرءته: "ترا يكي و ترا سه" أو قال: "تو يكي تو سه"، قال أبو القاسم الصفار: لايقع شيء، و قال الصدر الشهيد: يقع إذا نوی، قال: و به يفتي، قال القاضي: و ينبغي أن يكون الجواب على التفصيل: إن كان ذلك في حال مذاكرة الطلاق أو في حال الغضب يقع الطلاق و إن لم يكن لايقع إلا بالنية، كما قال بالعربية: أنت واحدة."
(کتاب الطلاق، الفصل الثاني في الكنايات، الجنس الرابع في قوله ترايكي تا سه ، ج : 2، ص : 98 ، طبع : رشیدیة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602102451
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن