بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تین ماہ کا حمل ضائع ہوجائے تو نماز کا کیا حکم ہے؟


سوال

کسی عورت کا تین ماہ کا حمل ضائع ہوجائے تو نماز کا کیا حکم ہے ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں  تین ماہ کا حمل ضائع ہونے کے بعد آنے والا خون نفاس شمار نہ ہوگا، البتہ اگر   اس سے پہلے پندرہ دن یا ا س سے زیادہ پاکی کے گزرے ہوں، اور تین دن یا اس سے زائد ایام جاری رہے،  تو  یہ حیض شمار ہوگا، پس اگر مذکورہ خون  عادت مکمل ہونے کے بعد بھی جاری رہا اور دس دن سے تجاوز کر گیا تو عادت کے ایام کے علاوہ باقی ایام استحاضہ شمار ہوں گے، نیز اسقاط کے بعد آنے والا خون اگر تین دن سے کم جاری رہا تو اس صورت میں بھی مذکورہ خون استحاضہ شمار ہوگا ۔

استحاضہ کا حکم یہ ہے کہ  ایسی خاتون  نماز و قرآن مجید  پڑھ سکتی ہے، قرآن   مجید چھو بھی سکتی ہے،(  البتہ اگر استحاضہ کا خون مسلسل جاری ہو اور کسی ایک نماز کا مکمل وقت اس حالت میں گزرجائے کہ نجاست کو دھوکر پاکی حاصل کرکے وقتی فرض نماز نہ ادا کرسکے تو وہ شرعی معذور شمار ہوگی،  اور اس کے وضو و طہارت کاتعلق ہر نماز کے وقت سے ہوتا ہے، یعنی اسے ہر نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد نماز یا قرآن مجید پڑھنے سے پہلے وضو کرنا ضروری ہوگا، اور ایسی خاتون کا وضو اس نماز کے وقت کے ختم ہوتے ہی ختم شمار ہوگا، اگلی نماز کا  وقت داخل ہونے پر دوبارہ وضو کرنا ضروری ہوگا۔)   روزہ بھی رکھ سکتی ہے اور شوہر سے مباشرت بھی کرسکتی ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)  میں ہے:

"(وسقط) مثلث السين: أي مسقوط (ظهر بعض خلقه كيد أو رجل) أو أصبع أو ظفر أو شعر، ولايستبين خلقه إلا بعد مائة وعشرين يوماً (ولد) حكماً (فتصير) المرأة (به نفساء والأمة أم ولد ويحنث به) في تعليقه وتنقضي به العدة، فإن لم يظهر له شيء فليس بشيء، والمرئي حيض إن دام ثلاثاً وتقدمه طهر تام وإلا استحاضة، ولو لم يدر حاله ولا عدد أيام حملها ودام الدم تدع الصلاة أيام حيضها بيقين ثم تغتسل ثم تصلي كمعذور.

 (قوله: فليس بشيء) قال الرملي في حاشية المنح بعد كلام: وحاصله: أنه إن لم يظهر من خلقه شيء فلا حكم له من هذه الأحكام (قوله: والمرئي) أي الدم المرئي مع السقط الذي لم يظهر من خلقه شيء ... (قوله: وإلا استحاضة) أي إن لم يدم ثلاثاً وتقدمه طهر تام، أو دام ثلاثاً ولم يتقدمه طهر تام، أو لم يدم ثلاثاً ولاتقدمه طهر تام ح. (قوله: ولو لم يدر حاله إلخ) أي لايدري أمستبين هو أم لا؟ بأن أسقطت في المخرج واستمر بها الدم، فإذا كان مثلاً حيضها عشرة وطهرها عشرين ونفاسها أربعين، فإن أسقطت من أول أيام حيضها تترك الصلاة عشرةً بيقين؛ لأنها إما حائض أو نفساء ثم تغتسل وتصلي عشرين بالشك لاحتمال كونها نفساء أو طاهرةً ثم تترك الصلاة عشرةً بيقين؛ لأنها إما نفساء أو حائض، ثم تغتسل وتصلي عشرين بيقين لاستيفاء الأربعين، ثم بعد ذلك دأبها حيضها عشرة وطهرها عشرون، وإن أسقطت بعد أيام حيضها فإنها تصلي من ذلك الوقت قدر عادتها في الطهر بالشك، ثم تترك قدر عادتها في الحيض بيقين. وحاصل هذا كله أنه لا حكم للشك، ويجب الاحتياط. اهـ من البحر وغيره، وتمام تفاريع المسألة في التتارخانية، ونبه في البدائع على أن في كثير من نسخ الخلاصة غلطاً في التصوير من النساخ\". ( ١ / ٣٠٢ )

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:

’’(وَدَمُ اسْتِحَاضَةٍ) حُكْمُهُ (كَرُعَافٍ دَائِمٍ) وَقْتًا كَامِلًا (لَا يَمْنَعُ صَوْمًا وَصَلَاةً) وَلَوْ نَفْلًا (وَجِمَاعًا)؛ لِحَدِيثِ: «تَوَضَّئِي وَصَلِّي وَإِنْ قَطَرَ الدَّمُ عَلَى الْحَصِيرِ»‘‘.

و في الشامية:

’’(قَوْلُهُ: لَا يَمْنَعُ صَوْمًا إلَخْ) أَيْ وَلَا قِرَاءَةً وَمَسَّ مُصْحَفٍ وَدُخُولَ مَسْجِدٍ، وَكَذَا لَا تُمْنَعُ عَنْ الطَّوَافِ إذَا أَمِنَتْ مِنْ اللَّوْثِ، قُهُسْتَانِيٌّ عَنْ الْخِزَانَةِ ط‘‘. (١/ ٢٩٨)

وفیه أیضاً:

’’وَكَطَهَارَةِ الْمُسْتَحَاضَةِ وَالْمُتَيَمِّمِ تُنْتَقَضُ عِنْدَ خُرُوجِ الْوَقْتِ‘‘. (٢/ ٣٦٩) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206201124

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں