بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الثانی 1446ھ 10 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

تین دن نوکری پر لیٹ جانے کی وجہ سے ایک دن کی تنخواہ کاٹنا


سوال

تین دن نوکری پر لیٹ جانے کی وجہ سے ایک دن کی تنخواہ کٹ جانا ، یہ جائز ہے یا ناجائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی ادارے کے ملازمین کی حیثیت شرعی طور پر اجیر خاص کی ہوتی ہے؛  کیوں کہ وہ وقت کے پابند ہوتے ہیں، اور  اجیر خاص  ملازمت کے مقررہ وقت پر حاضر رہنے سے اجرت (تنخواہ)  کا مستحق ہوتا ہے، اگر وہ  ملازمت کے اوقات میں  حاضر نہیں  رہا یا تاخیر سے آیا  تو اس   غیر حاضری اور تاخیر کے بقدر تنخواہ  کا وہ مستحق نہیں ہوتا۔

اب اگر کوئی کمپنی یہ ضابطہ بناتی ہے کہ تین دن چھٹی کرنے پر ایک مکمل دن کی تنخواہ کٹے گی تو  اس کا  حکم یہ ہے کہ یہ ضابطہ شرعاً درست نہیں ہے، تین دن تاخیر سے آنے پر ایک پورے دن کی تنخواہ کاٹنا جائز نہیں ہے؛ اس لیے ملازم نے جتنا وقت دیا ہے اتنے وقت کی تو وہ تنخواہ کا مستحق ہے ،البتہ تنخواہ میں کٹوتی کے جواز کی صورت یہ ہے کہ  ملازم کی ماہانہ تنخواہ کو  اس کی ملازمت کے مکمل وقت (مثلًا صبح 8 سےشام 5 بجے تک وغیرہ)میں تقسیم کردیا جائے،  پھر جس دن کوئی ملازم ملازمت کے وقت تاخیر سے آئے تو  اس کی تنخواہ  میں سے صرف اس تاخیر کے بقدر کٹوتی کی جاسکتی ہے۔

      البحر الرائق میں ہے:

"وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال".(5/41، فصل فی التعزیر،  ط:  سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200796

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں