بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میراث میں بہنوں کا حصہ نہ دینا


سوال

 تین بھائی ہیں، ایک فوت ہوا ہے، 6 بہنیں ہیں  2 فوت ہوئی ہیں۔ سوال یہ کرنا ہے کہ میراث میں کافی زمین رہ گئی ہے جو تینوں بھائیوں نے آپس میں تقسیم کی ہے بہنوں کو حصہ نہیں دیا ہے۔ اب ایک بھائی کہتاہے قانوناً بہنوں کو حصہ نہیں مل سکتا، البتہ شرعاً مل سکتا ہے، اس لیے زمین ایک بھائی نے اپنے نام کی ہے جعلی انگوٹھے کے نشانات لگاکر۔ کیا اس طرح کرنے سے بہنیں میراث سے قانوناً وشرعاً محروم ہوں گی؟ اب تک تقریباً 40۔50 سال ہوگئے ہیں بہنوں کو حصہ سے محروم رکھا ہے، ان 40۔50 سالوں میں جو زمین سے آمدن آئی ہے کیا یہ جو بھائیوں نے آپس میں تقسیم کرکے کھالی حرام کے زمرے میں داخل ہے کہ ان بھائیوں نے حرام کھایا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ والدین کے ترکہ میں جس طرح ان کی نرینہ اولاد کا حق وحصہ ہوتا ہے اسی طرح بیٹیوں کا بھی اس میں شرعی حق وحصہ ہوتا ہے، والدین کے انتقال کے بعد ان کے ترکہ پر بھائیوں کا  خود  تنِ تنہا قبضہ کرلینا اور بہنوں کو  ان کے شرعی حصے سے محروم کرنا ناجائز اور سخت گناہ ہے، بھائیوں  پر لازم ہے  کہ بہنوں کو ان کا حق وحصہ  اس دنیا میں دے دیں ورنہ آخرت میں دینا پڑے گا اور آخرت میں دینا آسان نہیں ہوگا، حدیثِ مبارک میں اس پر  بڑی وعیدیں آئی ہیں، حضرت سعید  بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص( کسی کی ) بالشت بھر زمین  بھی  از راہِ ظلم لے گا، قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی  زمین اس کے گلے میں طوق  کے طور پرڈالی  جائے گی،  ایک اور حدیثِ مبارک میں ہے، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی  میراث کاٹے گا، (یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔ نیز انگوٹھے کے جعلی نشانات لگاکر زمین اپنے نام کروانے میں غصب کے ساتھ ساتھ دھوکا دہی  کا گناہ بھی ہوگا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں بھائیوں کو چاہیے کہ بہنوں کو ان کا مکمل شرعی حصہ دیں اور اس  کا طریقہ یہ ہے کہ کل ترکہ سے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد،  اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اس کو باقی ترکہ سے ادا کرنے کے بعد،  اگر مرحوم نے شرعاً کوئی جائز وصیت کی ہو تو اس کو باقی ترکہ کے ایک تہائی سے پورا کرنے کے بعد  باقی پورے ترکہ (خواہ منقولی ہو یا غیر منقولی ) کو  (اگر مذکورہ فوت شدہ بھائی اور بہنیں والد کے انتقال کے وقت حیات تھیں) ۱۲ حصوں میں تقسیم کر کے دو دو حصے ہر ایک بھائی  کو اور ایک ایک حصہ ہر ایک بہن کو ملے گا (مرحومین کا حصہ ان کی اولاد کو شرعی تقسیم کے مطابق ملے گا) اور اگر والد کے انتقال کے وقت کسی کا انتقال ہو چکاتھا تو اس کی وضاحت کر کے سوال پوچھ لیں۔ باقی زمین جتنے عرصہ تک استعمال کی گئی ہے تو اس کے بقدر رقم بہنوں کو دی جائے گی۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين»".

(مشكاة المصابيح، 1/254، باب الغصب والعاریة، ط: قدیمی)

           وفیہ ایضاً: 

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة» . رواه ابن ماجه".

(1/266، باب الوصایا، الفصل الثالث،  ط: قدیمی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110201379

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں