بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تصویر جلانے کا حکم


سوال

کیا تصویر کو جلا سکتے ہیں؟ تصویر جلانے میں کوئی قباحت تو نہیں ہے؟

جواب

 شریعتِ مطہرہ  کی رو سے کسی بھی جان دار کی تصویر  بنانا،  دیکھنا اور دکھانا سب ناجائز ہے،  بلاضرورتِ شدیدہ تصویر رکھنے والوں پر احادیثِ مبارکہ میں مختلف وعیدیں آئی ہے، اس وجہ سے ان وعیدوں سے بچنے کے  لیے جان دار کی تصویر کو فوری طورپرضائع کردینا (مثلاً پھاڑدینا یا جلادینا) نہ صرف ایک مستحسن عمل ہے،  بلکہ اسلامی تعلیمات کے موافق مطلوب عمل ہے۔

حدیث شریف میں  ہے:

"عن أبي طلحة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا تدخل الملائكة بيتاً فيه صورة»".

 (صحيح البخاري: كتاب بدء الخلق، رقم الحدیث:3226،  ص: 385، ط: دار ابن الجوزي)

"عن عبد الله، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «إن أشد الناس عذاباً عند الله يوم القيامة المصورون»".

(صحيح البخاري: كتاب اللباس، باب عذاب المصورين، رقم:5950،  ص: 463، ط: دار ابن الجوزي)

فتاوی شامی میں ہے:

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ".

 ( كتاب الصلاة، مطلب: مكروهات الصلاة، ج:1، ص:647، ط:ایچ ایم سعید )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209201177

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں