بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح میں ختمِ قرآن پر اجرت لینا


سوال

ختمِ قرآن تراویح پر اجرت لینا کیسا ہے؟

جواب

 تراویح میں قرآنِ مجید سناکر اجرت لینا اور لوگوں کے لیے اجرت دینا جائز نہیں ہے، لینے اور دینے والے  دونوں گناہ گار ہوں گے اورثواب بھی نہیں ملے گا،اس حالت میں بہترہےکہ  ﴿اَلَمْ تَرَکَیْفَ﴾  سے تراویح پڑھادی جائے، اس سےبھی تراویح کی سنت ادا ہوجائےگی۔

حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 73):
"وأن القراءة لشيء من الدنيا لاتجوز، وأن الآخذ والمعطي آثمان؛ لأن ذلك يشبه الاستئجار على القراءة، ونفس الاستئجار عليها لايجوز، فكذا ما أشبهه كما صرح بذلك في عدة كتب من مشاهير كتب المذهب؛ وإنما أفتى المتأخرون بجواز الاستئجار على تعليم القرآن لا على التلاوة وعللوه بالضرورة وهي خوف ضياع القرآن، ولا ضرورة في جواز الاستئجار على التلاوة كما أوضحت ذلك في شفاء العليل".

(فتاوی ر حیمہ 6/235، ط: دارالاشاعت۔ فتاوی دارالعلوم دیوبند  4/246، ط: دارالاشاعت) فقط واللہ اعلم

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتویٰ ملاحظہ کیجیے:

تراویح میں ختم قرآن کے موقع قاری اور سامع کے لیے ہدیہ لینے کا حکم


فتوی نمبر : 144107201115

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں