بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح پر اجرت


سوال

تراویح پر اجرت لینا کیسا ہے، جب  کہ لوگو  اپنی خوشی  سے  دیں اور تراویح پڑھانے  والی  کی  لینے  کی نیت بھی نا ہو !

جواب

واضح  رہے کہ اگر تراویح  پڑھانے  سے قبل باقاعدہ طور پر تراویح پڑھانے  کی اجرت طے کی جائے یا اجرت لینا دینا معروف ہو تو اجرت لینا اور دینا جائز نہیں ہوگا ۔ اگر پہلے سے اجرت طے نہیں کی جائے  اور نہ ہی تراویح پر اجرت  دینا لینا معروف ہو، بلکہ اخیر میں لوگ  اپنی صواب دید  پر تراویح پڑھانے والے کو کچھ  رقم یا دیگر  ہدایا دے دیں  (اور حافظ کی طرف سے طلب یا اظہار نہ ہو) تو  وہ شرعًا حلال ہو  گی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"فالحاصل: أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا يجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال، فإذا لم يكن للقارىء ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر!! ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظيم مكسباً ووسيلةً إلى جمع الدنيا، إنا لله وإنا إليه راجعون!!

(کتاب الاجارہ باب الاجارۃ الفاسدہ ج نمبر ۶ ص نمبر ۵۶،ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209202102

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں