بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح میں کتنے دنوں کے اندر قرآن مجید کاختم کرنا سنت ہے؟


سوال

 کیا رمضان المبارک میں قرآن مجید کا پورے تیس دن کی تراویح میں پڑھنا مسنون ہے یا کچھ دنوں میں جیسے 10 دن یا 27دنوں میں؟

جواب

تراویح میں ایک قرآنِ مجید ختم کرنا سنت ہے، اب چاہے وہ مکمل مہینے میں ختم کیا جائے یا کچھ دنوں میں ختم کرلیا جائے، جیسے سہولت ہو اس حساب سےقرآن کریم مکمل کرسکتے ہیں، لیکن اس کےساتھ یہ بھی ملحوظ رہے کہ رمضان المبارک میں تراویح میں قرآن مجید کا سن کر یا پڑھ کر ختم کرنا مستقل سنت ہے اور   رمضان المبارک کے پورے  مہینہ میں تراویح پڑھنا  ایک مستقل الگ سنت ہے، اگر کسی نے رمضان المبارک میں تراویح میں قرآنِ مجید پڑھ کر یا سن کر مکمل کرلیا تو اس کی ایک سنت ادا ہوئی ہے ،دوسری سنت یعنی مکمل رمضان بیس رکعات تراویح پڑھنا، باقی ہے،جس طرح پہلی سنت کا اہتمام کیا ہے تو اب اس دوسری سنت کو بھی اہتمام کے ساتھ مکمل رمضان میں ادا کرنا چاہیے،  باقی ایک مرتبہ ختم قرآن کے بعد  تراویح میں  قرآنِ مجید  کہیں سے بھی چاہے پڑھ  سکتا ہے، بشرطیکہ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد کم از تین مختصر آیات یا ایک طویل آیت یا کوئی سورت پڑھے۔

ملحوظ رہے کہ اگر پورے مہینے میں قرآنِ مجید مکمل کرنا ہو تو ایسی ترتیب بنانی چاہیے کہ انتیسویں شب میں قرآنِ مجید مکمل ہوجائے، کیوں کہ چاند کے حساب سے بسا اوقات مہینہ انتیس کا ہوتاہے، ایسی صورت میں  اگر تیس کے حساب سے ترتیب بنائی تو قرآن مجید مکمل نہیں ہوسکے گا۔ اور  اگر تیس کا مہینہ ہوا تو تیسویں شب  کی تراویح میں  مختلف جگہوں سے تلاوت کرلی جائے۔

''فتاوی شامی''  میں ہے: 

'' (والختم) مرةً سنةٌ ومرتين فضيلةٌ وثلاثاً أفضل. (ولا يترك) الختم (لكسل القوم)، لكن في الاختيار: الأفضل في زماننا قدر ما لا يثقل عليهم، وأقره المصنف وغيره. وفي المجتبى عن الإمام: لو قرأ ثلاثاً قصاراً أو آيةً طويلةً في الفرض فقد أحسن ولم يسئ، فما ظنك بالتراويح؟ وفي فضائل رمضان للزاهدي: أفتى أبو الفضل الكرماني والوبري أنه إذا قرأ في التراويح الفاتحة وآيةً أو آيتين لا يكره، ومن لم يكن عالماً بأهل زمانه فهو جاهل.

(قوله: الأفضل في زماننا إلخ)؛ لأن تكثير الجمع أفضل من تطويل القراءة، حلية عن المحيط. وفيه إشعار بأن هذا مبني على اختلاف الزمان، فقد تتغير الأحكام لاختلاف الزمان في كثير من المسائل على حسب المصالح، ولهذا قال في البحر: فالحاصل أن المصحح في المذهب أن الختم سنة، لكن لا يلزم منه عدم تركه إذا لزم منه تنفير القوم وتعطيل كثير من المساجد خصوصاً في زماننا، فالظاهر اختيار الأخف على القوم.
(قوله: وفي المجتبى إلخ) عبارته على ما في البحر: والمتأخرون كانوا يفتون في زماننا بثلاث آيات قصار أو آية طويلة حتى لا يمل القوم ولا يلزم تعطيلها، فإن الحسن روى عن الإمام أنه إن قرأ في المكتوبة بعد الفاتحة ثلاث آيات فقد أحسن ولم يسئ، هذا في المكتوبة فما ظنك في غيرها؟'' اهـ.

(2/ 46، 47 باب الوتر والنوافل، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209201427

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں