بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح میں سورہ نمل میں جہرًا بسم اللہ پڑھنے کے باوجود کسی سورت کے شروع میں جہرًا بسم اللہ پڑھنے کی وجہ


سوال

تراویح میں قرآن مکمل کرنے کے لیے بسم اللہ الرحمن الرحیم بلند آواز پڑھنا ضروری ہے جب کہ سورہ نمل میں بسم اللہ  الرحمٰن الرحیم پڑھ لیتے ہیں،  پھر کیوں ضروری ہے سورت کے شروع میں بلند سے بسم اللہ پڑھنا ؟ 

جواب

تراویح کے دوران ہرسورت کے شروع میں آہستہ آواز سے بسم اللہ پڑھنی چاہیے، باقی امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک "بسم اللہ "  جو  ہر سورت کے شروع میں لکھی ہوتی ہے وہ ہر سورت کا جز نہیں ہے، بلکہ قرآن کا جز ہے، یعنی  قرآن کی ایک آیت ہے جس کے نزول کا مقصد سورتوں کے درمیان فصل ظاہر کرنا ہے، جیساکہ حدیث شریف میں اس کا ذکر ملتا ہے کہ "بسم اللہ الرحمٰن الرحیم" کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ ﷺ کے لیے سورتوں کے درمیان فصل کی سہولت ہوگئی۔ اور یہ سورہ نمل والی آیت{ إِنَّهُ مِنْ سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ}[النمل: 30] (جس میں بسم اللہ ہے) کے علاوہ الگ سے مستقل آیت ہے،  سورۂ نمل کی آیت درمیانِ سورت میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے خط کے تذکرے کے ضمن میں ہے؛ لہذا  تراویح میں اگر مکمل قرآن مجید کی تکمیل کا ارادہ ہو تو ایسی صورت میں تکمیلِ سنت کے لیے کسی بھی سورت کے آغاز میں ایک مرتبہ بسم اللہ بلند آواز سے پڑھ لینا چاہیے، تاکہ سامعین کی بھی تکمیل ہوجائے،  پس اگر امام  پست آواز میں بسم اللہ پڑھتا رہا تو اس کے قرآن مجید کی تکمیل تو ہوجائے گی، اور اس کی سنت ادا ہوجائے گی، تاہم سامعین  ایک آیت نہ سن سکنے کی وجہ سے مکمل قرآن کی  سماعت  کی سنت سے محروم رہ جائیں گے۔

البحرالرائق میں ہے :

"والخلاف في الاستنان أما عدم الكراهة فمتفق عليه ولهذا صرح في الذخيرة والمجتبى بأنه إن سمى بين الفاتحة والسورة كان حسنًا عند أبي حنيفة سواء كانت تلك السورة مقروءةً سرًّا أو جهرًا". (1 / 330،ط:دارالمعرفه)

فتاوی شامی میں ہے:

"وذكر في المصفى أن الفتوى على قول أبي يوسف أنه يسمي في أول كل ركعة ويخفيها، وذكر في المحيط: المختار قول محمد، وهو أن يسمي قبل الفاتحة وقبل كل سورة في كل ركعة". (1/490،سعید)

مجموعہ رسائل امام لکھنوی میں ہے:

"ولو قرأ تمام القرآن في التراويح و لم يقرأ البسملة في ابتداء سورة من السور سوى ما في سورة النمل، لم يخرج عن عهدة السنية، و لو قرأها الإمام سرًّا خرج عن العهدة، و لكن لم يخرج المقتدون عن العهدة".

( مجموعة الرسائل اللكنوي، أحكام القنطرة في أحكام البسملة، ١/ ٧١، ط: ادارة القرآن و العلوم الإسلامية، كراتشي)

(  امداد الاحکام، ٢/ ٢٤٤، امداد الفتاوی، ١/ ٤٩٥)   

'' امداد الاحکام'' میں ہے:

''  امام عاصم یا حفص کی تقلید صرف قرآن کی تلاوت اور وجوہِ قرات میں کی جاتی ہے ، باقی احکامِ صلاۃ میں ان کی تقلید نہ ہوگی ،بلکہ اس میں فقہاء کی تقلید ہوگی، سو ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک بسم اللہ صرف ایک مرتبہ پڑھناختمِ قرآن کے لیے ضروری ہے، اگرایک دفعہ کسی سورت پر بسم اللہ پڑھ دی گئی تو قرآن پورا ہوگیا اور بہتریہ ہے کہ ایک دفعہ تراویح میں اس آیت کوجہراً پڑھاجائے ، جیسا کہ تراویح میں سارا قرآن جہر سے پڑھاجاتا ہے، اگرامام کسی جگہ بھی بسم اللہ کوجہر سے نہ پڑھے، بلکہ کسی ایک جگہ سراً پڑھ لے تو امام کاختم توپورا ہوجائے گا، لیکن سامعین کے ختم میں ایک آیت کی کمی رہے گی، باقی سب سورتوں کے اول میں بسم اللہ کوجہر سے پڑھنا امام صاحب رحمہ اللہ کے نزدیک مکروہ  ہے، اور ہرسورت کے اول میں سراً پڑھنا جائز ہے،بلکہ اگرمقتدیوں پرتطویل کاخوف نہ ہو تو مستحب ہے، واللہ اعلم، ۲ جمادی الاولیٰ ۴۵ھ''۔

( امداد الاحکام 1/630، ط: مکتبہ دارالعلوم کراچی)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209202277

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں