بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میراث کی تقسیم میں ٹال مٹول کرنا


سوال

 میرےدادا صاحب نے وراثت شرعی طریقہ سے تقسیم کی یانہیں، مجھے علم نہیں،  لیکن میرے والد صاحب نے وراثت شرعی طریقہ سے تقسیم نہیں کی اور اب بیس  سال  ان کے انتقال کے ہوگئے،  لیکن ہمارے  بھائیوں نے بھی وراثت تقسیم نہیں کی،ہم 6 بھائی تھے 2  سال پہلے ایک بھائی کابھی انتقال ہو چکا ہے اس کی بیوہ  ہے  بچے نہیں ہیں۔

اب مسئلہ یہ ہےکہ میرےبھائی بھی وراثت کو شرعی طریقہ سے تقسیم نہیں کر رہے،  باربار بولنےکےباوجود،اورمیں شرعی طریقہ سے وراثت تقسیم کرناچاہتاہوں،  لہذا  مجھےکیاکرناچاہےاور تھوڑا سا حصہ لےکرباقی چھوڑ دینا چاہے یااورکوئی طریقہ ہے؟ راہ نمائی فرمائیں!

جواب

واضح رہے کہ مورِث کے انتقال کے بعد اس کی تمام مملوکہ چیزوں میں  مرحوم کے تمام شرعی  ورثاء اپنے  شرعی حصوں کے حق دار ہوتے ہیں، مرحوم کے انتقال کے بعد ترکہ تقسیم کر کے ورثاء کو حصہ نہ دینا جائز نہیں ہے، حدیث مبارکہ میں اس پر بہت سخت وعیدیں وارد ہوئی ہے۔ حضرت سعید  بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا؛ جو شخص( کسی کی ) بالشت بھر زمین  بھی  از راہِ ظلم لے گا،قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی  زمین اس کے گلے میں   طوق  کے طور پرڈالی  جائے گی۔ "   ایک اور حدیثِ مبارک میں ہے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی  میراث کاٹے گا،(یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔

صورت مسئولہ میں سائل اور بھائیوں  کو چاہیے کہ وہ جائیداد ورثاء میں ان کےشرعی حصوں کے مطابق تقسیم کریں،کسی ایک  وارث کا تمام جائیداد پر قابض ہونا جائز نہیں ہے، لہذا سائل کو چاہیے کہ وہ بھائیوں کو اس بات پر امادہ کریں کہ وہ جائیداد کو شرعی طریقہ پر تقسیم کر کے ہر ایک وارث کو اس کا حصہ دے دیں، اگر تقسیم کر لیتے ہیں تو فبہا اور اگر تقسیم نہیں کرتے تو  سائل اپنے حصہ کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ نیز شرعی طور پر   اپنے حصے کے بقدر یا اپنی  خوشی ورضامندی سے کچھ لے کر باقی سے دستبرار ہونا چاہے تو ہو سکتا ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين»".

(مشکاۃ المصابیح ،  باب الغصب والعاریة، ج: 1، ص: 254،  ط: قدیمی كتب خانه)

وفیہ ایضاً:

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة» . رواه ابن ماجه". 

(مشکاۃ المصابیح باب الوصایا، الفصل الثالث،ج:1، ص: 266، ط: قدیمی كتب خانه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101284

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں