بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

منگنی کے نکاح کے بعد طلاق دینا


سوال

 میں نے منگنی میں بھی نکاح کیا تھا اور پھر شادی کے موقع پردوسرا نکاح بھی کیا تھا۔مسئلہ یہ ہے میں نے منگنی کے نکاح میں بیوی کو کچھ طلاق کے الفاظ بولے تھے۔پھر ہمارا دوسرا  نکاح شادی کے موقع پر ہوا تھا ،پہلے والے نکاح میں طلاق سے کچھ فرق پڑتا ہے کہ نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ منگنی کی حیثیت وعدۂ نکاح کی ہوتی ہے اور منگنی کا مقصد مستقبل میں ہونے والے نکاح کے عقد کو پختہ کرنا ہوتا ہے، کبھی کبھار اس مجلس میں نکاح کے لیے ابتدائی اور ضروری امور مثلاً: مہر وغیرہ بھی طے کر لیے جاتے ہیں، لیکن اگر اس مجلس کے انعقاد کا مقصد منگنی ہو، نہ کہ نکاح، تو اس صورت میں اس کی حیثیت وعدۂ نکاح ہی کی رہے گی، اس سے نکاح منعقد نہیں ہوگا، اور مستقبل میں اگر اس رشتہ کو باقی نہ رکھنا ہو تو طلاق دینا ضروری نہیں ہو گا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں منگنی  کی مجلس   کے بعد جو طلاق دی گئی ہے اس سے طلاق واقع نہیں ہوئی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"هل أعطيتنيها إن المجلس للنكاح، وإن للوعد فوعد.

قال في شرح الطحاوي: لو قال هل أعطيتنيها فقال أعطيت إن كان المجلس للوعد فوعد، وإن كان للعقد فنكاح. اهـ." 

(كتاب النكاح،جلد:3، صفحہ: 11، طبع: سعيد)

کفایت المفتی میں ایک سوال کے جواب میں ہے:

’’منگنی کی جو مجلسیں منعقد کی جاتی ہیں وہ صرف رشتہ اور ناطہ مقرر کرنے کے لئے کی جاتی ہیں ۔ اس میں جو الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں وہ وعدہ کی حد تک رہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ منگنی کی مجلس کے بعد فریقین بھی اس کو نکاح قرار نہیں دیتے بلکہ اس کے بعد نکاح کی مجلس منعقد کی جاتی ہے اور نکاح پڑھایا جاتا ہے اس لئے ان مجالس کے الفاظ میں عرف یہی ہے کہ وہ بقصد وعدہ کہے جاتے ہیں نہ بقصد نکاح ۔ ورنہ نکاح کے بعد پھر مجلس نکاح منعقد کرنے کے لئے کوئی معنی نہیں ۔ نیز منگنی کی مجلس کے بعد منکوحہ سے اگر زوج تعلقات زن شوئی کا مطالبہ کرے تو کوئی بھی اس کے لئے آمادہ نہیں ہوتا بلکہ کہتے ہیں کہ نکاح تو ہوا ہی نہیں ۔ عورت کو مرد کے پاس کیسے بھیج دیا جائے،  بہر حال منگنی کی مجلس وعدے کی مجلس ہے اس کے الفاظ سب وعدہ پر محمول ہوں گے ۔ کیونکہ عرف یہی ہے ۔ لہذا اس کو نکاح قرار دینا درست نہیں، البتہ اگر منگنی کی مجلس میں صریح لفظ نکاح استعمال کیا جائے ۔ مثلا ً زوج یا اس کا ولی یوں کہے کہ اپنی لڑکی کا نکاح میرے ساتھ کر دو اور ولی زوجہ کہے کہ میں نے اپنی لڑکی کا نکاح تیرے ساتھ کر دیا تو نکاح ہوجائے گا ۔  لأن الصریح یفوق الدلالة.‘‘

(کتاب النکاح،ج:5،ص:49،ط:دارالاشاعت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100801

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں