بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تنخواہ کی رقم پر زکاۃ کا حکم


سوال

میرا بھائی بیرون ملک سے اپنی تنخواہ میرے اکاؤنٹ میں بھیجتا ہے،  اب کبھی اس اکاؤنٹ میں پیسے ہوتے ہیں اور کبھی پورا سال میں کسی مہینے میں سارے پیسے ختم ہو جاتے ہیں،  پھر اگلے مہینے دوبارہ اس میں تنخواہ آتی ہے اسی طرح پورا سال سلسلہ چلتا رہتا ہے،  اب اس تنخواہ پر یا اس اکاؤنٹ پر زکوۃ کا کیا حکم ہے ؟

جواب

بصورتِ مسئولہ اگر تنخواہ کی رقم ماہانہ خرچ ہوجاتی ہے، کچھ بچتا نہیں یا کچھ بچتا ہے،  لیکن نصاب کے برابر نہیں  اور آپ کا بھائی  کسی اور قابلِ زکاۃ مال (سونا، چاندی، مالِ تجارت) کے اعتبار سے بھی صاحبِ نصاب نہیں تو  زکاۃ واجب نہیں ہوگی۔ 

اور اگر آپ کا بھائی پہلے سے صاحبِ نصاب تو نہیں ہے، لیکن تنخواہ کی رقم میں سے اخراجات (مثلاً رواں مہینے کے راشن اور یوٹیلیٹی بلز)کے بعد بچت ہوتی ہے، تو اگر  یہ رقم نصاب زکوۃ یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی رقم  کے برابر ہو  یا اس سے زیادہ ہو اور چاند کے اعتبار سے سال پورا ہونے پر بھی مذکورہ  نصاب کے برابر یا اس سے زیادہ مالِ زکاۃ موجود ہو تو سال پورا ہونے کے بعد زکاۃ واجب ہوگی۔

اور  اگر  آپ کا بھائی   پہلے  سے صاحبِ نصاب ہیں  یعنی زکاۃ دیتے چلے آئے ہیں اس صورت میں  زکاۃ کی ادائیگی کے دن اگر تنخواہ کی رقم میں سے جتنی رقم   (بنیادی اخراجات سے زائد) محفوظ ہوگی اس رقم کو مجموعی مال کے ساتھ ملائیں گے اور زکاۃ ادا کریں گے۔اور تنخواہ کی رقم میں سے جس قدر رقم خرچ ہوگئی ہو اس پر زکاۃ نہیں ہے،  نیز زکاۃ کی ادائیگی کی تاریخ تک جو واجب الادا قرض یا بل ہو وہ اس میں سے منہا کیا جائے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"و لیس في دور السکنی و ثیاب البدن و أثاث المنازل و دوابّ الرکوب و عبید الخدمة و سلاح الاستعمال زکاة؛ لأنها مشغولة بحاجته  الأصلیة ولیست بنامیة".

(کتاب الزکوۃ، ج:2، ص:262،کتاب الزکوۃ، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506101945

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں