بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طالبِ علم کو زکاۃ دینے کا حکم


سوال

کیا طالب ِعلم کو زکوة دینا جائز ہے؟

جواب

بالغ طالبِ  علم اگر خود مستحقِ زکات ہے، یعنی  اس کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونا بھی نہیں ہے، اور ضرورت و استعمال سے زائد اتنا مال یا سامان بھی نہیں ہے جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی تک پہنچے  اور وہ  سید/ ہاشمی بھی نہیں ہے تو اس کو زکات دینا جائز ہے، اگرچہ اس کے والدین مال دار ہوں، والدین کے مال دار ہونے سے بالغ لڑکا مال دار شمار نہیں ہوگا، ہاں اگر بالغ طالبِ علم کا خرچہ اس کےو الدین اٹھارہے ہیں، اور اس کو کسی قسم کی ضرورت نہیں ہے تو اس کے لیے بغیر ضرورت کے زکات لینا مناسب نہیں ہے۔

الفتاوى الهندية (1/ 189):

"ولايجوز دفعها إلى ولد الغني الصغير، كذا في التبيين. ولو كان كبيراً فقيراً جاز، ويدفع إلى امرأة غني إذا كانت فقيرةً، وكذا إلى البنت الكبيرة إذا كان أبوها غنياً؛ لأن قدر النفقة لايغنيها، وبغنى الأب والزوج لاتعد غنية، كذا في الكافي".

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200757

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں