بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

تعلیم کے وقت تلاوت کرنے والوں کو برا بھلا کہنا


سوال

یہ مسئلہ ہمارے کوہاٹ کے علاقے میں تبلیغ کے کچھ نچلے طبقہ کے ساتھیوں میں کافی پریشانی کا باعث ہے کہ اجتماعی کا لفظ بول کر انفرادی اعمال جن میں بعض مسنون اعمال ہیں اس کی نفی اور فضائل کی تعلیم گشت وغیرہ کے معاملہ میں بہت غلو کے اندر مبتلاء  ہیں کچھ ساتھیوں کا معمول ہے مختلف اوقات کےنوافل اورسورتوں کا مثلا رات عشاء کے بعد ساتھی سورۃ ملک پڑھتے ہیں اور رات کو تعلیم میں شریک نہیں  ہوتے تو ان سے کہا جاتا ہے کہ یہ شیطانی کام ہے۔برائے کرام اس معاملے میں ہماری رہنمائی کریں کہ کیا واقعی تبلیغ کے ہر کام ،ہر اجتماعی کام کایہ حکم ہےاور اسکےعلاوہ جو لوگ انفرادی اعمال  میں مشغول ہوں وہ ناجائز کام کررہے ہیں ؟ کیوں کے بعض ساتھی اس طرح طرز عمل پر حرام کا حکم بھی لگاتے ہیں برائے کرم اس معاملے میں اجتماعی کی وضاحت کر کے ہماری رہنمائی فرمائے؟

جواب

واضح رہے کہ تبلیغ دین کا کام فرض کفایہ ہے، یعنی امت چنیدہ افراد اگر اس فریضہ کی ادائیگی میں مشغول ہوں، تو بقیہ تمام افراد سے یہ فرض ساقط ہوجائے گا، البتہ اگر امت محمدیہ ساری کی ساری تبلیغ دین کا کام ترک کردے، تو ساری امت گناہ گار ہوگی، تاہم مروجہ تبلیغ  جماعت  سے منسلک ہونا نہ فرض ہے، اور  نہ ہی واجب ہے، البتہ مذکورہ طریقہ کار کے مطابق تبلیغ کا کام مفید ہے،  بہرصورت مروجہ تبلیغی جماعت سے منسلک نہ ہونے سے انسان گناہگار نہ ہوگااور مروجہ تبلیغی جماعت سے منسلک افراد کی تربیت کے لیے بزرگوں نے جو نصاب مقرر کیا ہے، وہ ان افراد کے لیے  مفید  تر ہے،  تاہم یہ معمولات توقیفی و لازمی نہیں ہیں کہ اس کی خلاف ورزی کرنے پر آدمی گناہگارقرار پائے،  لہذا صورت مسئولہ  میں   تعلیم میں شریک نہ ہونے والوں  کو  جو تلاوت وغیرہ میں مشغول ہیں ان  اس طرح کہنا کہ یہ شیطانی اور جاہل شخص کا کام ہے  ، شرعا جائز نہیں ہے،     ایسے الفاظ کہنےوالے افراد کو سچے دل سے توبہ استغفار کرنا چاہیے، اور جن کی دل آزاری کی ان سے معافی و معذرت کریں، تبلیغی احباب تعلیم  میں شرکت کے لیے ترغیب دے سکتے ہیں ،لیکن تنقید کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔

ارشاد باری تعالی ہے:

"وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ."﴿آل‌عمران: 104﴾

ترجمہ:"اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور اچھے کام کرنے کا حکم دے اور برے کاموں سے منع کرے۔ یہی لوگ ہیں جو نجات پانے والے ہیں۔"

احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"قال الله تعالى: {ولتكن منكم أمة يدعون إلى الخير ويأمرون بالمعروف وينهون عن المنكر} قال أبو بكر: قد حوت هذه الآية معنيين. أحدهما: وجوب الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر. والآخر: أنه فرض على الكفاية ليس بفرض على كل أحد في نفسه إذا قام به غيره. لقوله تعالى: {ولتكن منكم أمة} وحقيقته تقتضي البعض دون البعض, فدل على أنه فرض الكفاية إذا قام به بعضهم سقط عن الباقين. ومن الناس من يقول هو فرض على كل أحد في نفسه ويجعل مخرج الكلام مخرج الخصوص في قوله:{ولتكن منكم أمة} مجازا, كقوله تعالى: {يغفر لكم من ذنوبكم} [الأحقاف: ٣١] ومعناه: "ذنوبكم". والذي يدل على صحة هذا القول أنه إذا قام به بعضهم سقط عن الباقين, كالجهاد وغسل الموتى وتكفينهم والصلاة عليهم ودفنهم, ولولا أنه فرض على الكفاية لما سقط عن الآخرين بقيام بعضهم به."

(آل عمران : 104 جلد 2 ص: 37 , 38 ط: دارالکتب العلمیة)

شرح النووی علی مسلم میں ہے:

"وأما قوله صلى الله عليه وسلم فليغيره فهو أمر إيجاب بإجماع الأمة وقد تطابق على وجوب الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر الكتاب والسنة وإجماع الأمة وهو أيضا من النصيحة التي هي الدين....فقد أجمع المسلمون عليه.....ووجوبه بالشرع لا بالعقل....والله أعلم ثم إن الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر فرض كفاية إذا قام به بعض الناس سقط الحرج عن الباقين وإذا تركه الجميع أثم كل من تمكن منه بلا عذر ولا خوف ثم إنه قد يتعين كما إذا كان في موضع لا يعلم به الا هو أولا يتمكن من إزالته إلا هو وكمن يرى زوجته أو ولده أو غلامه على منكر أو تقصير في المعروف قال العلماء رضي الله عنهم ولا يسقط عن المكلف الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر لكونه لا يفيد في ظنه بل يجب عليه فعله فإن الذكرى تنفع المؤمنين."

(کتاب الایمان ، باب بیان کون النهی من الایمان جلد 2 ص: 22 , 23 ط: داراحیاء التراث العربي)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144408101048

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں