بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کے بعد عورت کا پردہ کے ساتھ مرد کے گھر میں رہنا


سوال

اگر شوہر بے خیالی میں عورت کو  طلاق دے دے تو طلاق تو ہوگئی، وہ مکمل پردے میں ہے اور آواز کا بھی پردہ کیا ہوا ہے ،مگر کیا وہ شوہر کے گھر میں رہ سکتی ہے؟ اور وہ عورت کھانا بنائے توسابقہ شوہر  کھا سکتا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ   اگر تین طلاقیں ہوگئیں ہیں تو تین طلاقوں کے بعد   مرد و عورت  کا ایک ساتھ رہنا شرعا جائز نہیں ہے،  البتہ اگر دونوں عمر رسیدہ ہوں اور ان کی جوان اولاد ہو  ،جس کی وجہ  سے  تنہا نہ رہ سکتے ہوں اور  ان کا  مکان اتنا بڑاہے کہ دونوں اس میں  جوان اولاد کے ساتھ پردہ کا خیال کرتے ہوئے  اجنبیوں کی طرح الگ الگ اس طرح رہ  سکتے ہوں کہ دونوں کے کمرے الگ ہوں، اور ان کا آمنا سامنا نہ ہو، اور گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہو تو مذکورہ طریقہ سے وہ ایک مکان میں  اپنی جوان اولاد کے ساتھ رہ سکتے ہیں،اور  مرد اپنی مطلقہ بیوی کے ہاتھ کا کھانا بھی کھا سکتا ہے۔

لیکن   اگر اولاد نہ ہو تو دونوں کا تنہا ایک گھر میں رہنا کسی بھی صورت میں درست نہیں  ہے،  اور اگر  اولاد ہونے کی صورت میں بھی  دونوں شرعی پردہ کے ساتھ نہیں رہ سکتے،  یا دونوں کے  گناہ میں مبتلا  ہوجانے کا اندیشہ ہو تو  ایسی صورت میں بالکل علیحدگی اختیار کرنا ضروری ہے، اور ایک مکان  میں رہنا جائز  نہیں ہوگا، اور اگر تین طلاقیں نہ  ہوں بلکہ ایک یا دو ہوں اور عدت چل رہی ہو تو رجوع کر سکتا ہے، لیکن اگر عدت ختم ہوچکی ہو یا طلاقِ بائن دی ہو تو دونوں تجدیدِ نکاح کے بعد ساتھ رہ سکتے ہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ولهما أن يسكنا بعد الثلاث في بيت واحد إذا لم يلتقيا التقاء الأزواج، ولم يكن فيه خوف فتنة انتهى.

وسئل شيخ الإسلام عن زوجين افترقا ولكل منهما ستون سنة وبينهما أولاد تتعذر عليهما مفارقتهم فيسكنان في بيتهم ولا يجتمعان في فراش ولا يلتقيان التقاء الأزواج هل لهما ذلك؟ قال: نعم، وأقره المصنف.

(قوله: وسئل شيخ الإسلام) حيث أطلقوه ينصرف إلى بكر المشهور بخواهر زاده، وكأنه أراد بنقل هذا تخصيص ما نقله عن المجتبى بما إذا كانت السكنى معها لحاجة، كوجود أولاد يخشى ضياعهم لو سكنوا معه، أو معها، أو كونهما كبيرين لا يجد هو من يعوله ولا هي من يشتري لها، أو نحو ذلك."

(كتاب الطلاق، باب  العدۃ، فصل في الحداد، 3 /538، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144312100371

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں