بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کی صورت میں زیورات کا حکم


سوال

اگر کسی عورت کو طلاق ہوجائے تو اس کے زیورات اسے شوہر کو واپس کرنا ہوں گے یا نہیں؟

جواب

عورت کو  نکاح کے موقع پر مہر کے علاوہ جو  زیورات سسرال والوں کی طرف سے ملتے ہیں، ان میں یہ تفصیل ہے کہ اگر  زیورات دیتے وقت  سسرال والوں نے اس بات  کی صراحت کی تھی کہ یہ  بطورِ عاریت یعنی صرف  استعمال کرنے کے لیے ہیں  تو پھر یہ  زیورات لڑکے والوں کی ملکیت ہوں گے، اور اگرسسرال والوں نےہبہ ، گفٹ اور  مالک بناکر دینے کی صراحت کردی تھی تو پھر ان زیورات  کی مالک لڑکی ہوگی، طلاق کے بعد شوہر ان زیورات کا مطالبہ نہیں کر سکتا، اور اگر  زیورات دیتے وقت کسی قسم کی صراحت نہیں  کی تھی   تو پھر لڑکے کے خاندان کے عرف کا اعتبار ہوگا، اگر ان کا عرف و رواج بطورِ ملک دینے کا ہے  یا ان کا کوئی رواج نہیں ہے تو ان دونوں صورتوں میں زیورات کی مالک لڑکی ہوگی، اور اگر  بطورِ عاریت دینے کا رواج ہے تو پھر سسرال والے ہی مالک ہوں گے اور مطالبہ کرنے کا حق رکھیں گے۔

باقی جو زیورات لڑکی کے والدین نے لڑکی کو دیے ہیں، ان میں لڑکے والوں کا کوئی حق نہیں۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"كل أحد يعلم الجهاز للمرأة إذا طلقها تأخذه كله، وإذا ماتت يورث عنها."

(کتاب النکاح، باب المہر، جلد:3، صفحہ: 158، طبع:سعید)

وفیه أیضاً:

"قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر، ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضاً."

(کتاب النکاح، باب المہر، جلد:3، صفحہ: 153، طبع:سعید)

وفیه أیضاً:

"والمعتمد البناء على العرف كما علمت."

(کتاب النکاح، باب المہر، جلد:3، صفحہ: 157، طبع:سعید)

فتاوی عالمگیری  میں ہے:

"وإذا بعث الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها، منها ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك، كذا في الفصول العمادية."

(کتاب النکاح، الباب السابع،  الفصل السادس عشر فی جہاز البنت، جلد:1، صفحہ: 327،  طبع: رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101176

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں