بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق کی شرط پر تحلیل کے لیے نکاح کرنا


سوال

اگر میاں بیوی کے درمیان تین طلاقیں واقع ہو چکی ہوں، لیکن دونوں کو غلطی کا شدید احساس ہے اور ناجائز تعلقات کے خدشے سے بچاؤ اور بچے کے مستقبل کی خاطر حالات و واقعات کی پیچیدگی کے باعث ان کے لیے رجوع ہی بہتر راستہ ہو تو شرعاً کوئی جواز ہے؟اور اگر ارادۃً  دوسرا نکاح کیا جائے اس شرط پہ کہ دوسرا شوہر طلاق دے دے گا تو اس صورت میں  حلالہ کا کوئی جواز ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں جب  عورت پر  طلاق مغلظہ یعنی تینوں  طلاقیں واقع ہوگئیں  تو قرآن کریم اور احادیث مقدسہ کی رو سے اس عورت کا اپنے سابقہ شوہر سے  اس وقت تک نکاح کرنا جائز نہیں  جب تک کہ پہلے شوہر کی عدت گزر جانے کے بعد اس عورت کا کسی اور جگہ نکاح نہ ہوجائے اور وہ دوسرا شوہر حقوق زوجیت ادا کرنے کے بعد اس کو طلاق  دے دے یا اس شوہر کا انتقال ہوجائے، پھر اس دوسرے شوہر کی عدت بھی گزرجائے تو اس  کے بعد سابقہ  شوہر سے نکاح جائز ہوتا ہے، دوسرے  نکاح کے  وقت اگر طلاق کی شرط نہ  لگائی جائے تو ایسے نکاح میں شرعًا کوئی قباحت نہیں ہے، اگرچہ  اس نیت سے یہ دوسرا نکاح ہو  کہ پہلے شوہر کے لیے حلال ہوجائے۔   تاہم دوسرے شوہر پر طلاق کی شرط لگانا کہ نکاح اور ہم بستری کے بعد اسے طلاق دینی ہوگی، یہ  صورت ناجائز ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محلل اور محلل لہ  دونوں کے لیے لعنت فرمائی ہے،  اگر چہ اس کے بعد زوجِ  اول کے ساتھ  اس عورت کا نکاح شرعًا جائز ہوجاتا ہے۔

مسند احمد بن حنبل میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: لعن ‌رسول ‌الله صلی اللہ علیہ وسلم  المحل، والمحلل له."

(مسند ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ جلد ۱۴ ص : ۴۲ ط : مؤسسة الرسالة)

در المختار میں ہے:

"(‌وكره) ‌التزوج للثاني (تحريما) لحديث «لعن المحلل والمحلل له» (بشرط التحليل)كتزوجتك على أن أحللك(وإن حلت للأول) لصحة النكاح وبطلان الشرط فلا يجبر على الطلاق كما حققه الكمال، خلافا لما زعمه البزازي........(أما إذا أضمر ذلك لا) يكره (وكان) الرجل (مأجورا) لقصد الإصلاح وتأويل اللعن إذا شرط الأجر ذكره البزازي (قوله: أما إذا أضمر ذلك) محترز قوله بشرط التحليل (قوله: لا يكره) بل يحل له في قولهم جميعا قهستاني عن المضمرات (قوله: لقصد الإصلاح) أي إذا كان قصده ذلك لا مجرد قضاء الشهوة ونحوها.

و أورد السروجي أن الثابت عادة كالثابت نصًّا أي فيصير شرط التحليل كأنه منصوص عليه في العقد فيكره. و أجاب في الفتح بأنه لايلزم من قصد الزوج ذلك أن يكون معروفا بين الناس، و إنما ذلك فيمن نصب نفسه لذلك و صار مشتهرًا به اهـ تأمل."

(کتاب الطلاق ، باب الرجعة جلد ۳ ص : ۴۱۴، ۴۱۵ ط : دارالفکر)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144308101532

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں