بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 جُمادى الأولى 1446ھ 03 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

طلاق دو کے جواب میں شوہر کا کہنا اوکے


سوال

بیوی نے شوہر سے کہا کہ مجھے طلاق دے دو اور شوہر نے کہا "او کے" تو طلاق واقع ہو گئی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب بیوی نے شوہر سے کہا کہ ’’مجھے طلاق  دو‘‘، اور شوہر نے کہا کہ:’’اوکے‘‘، تو ان  الفاظ سے بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، نکاح بدستور قائم ہے۔

اگر  شوہر  نے " اوکے " کے بعد  کہا کہ میں نے طلاق دے دی ،تو اگر عورت مدخولہ  ہے ،یعنی نکاح کے بعد رخصتی  یا خلوت صحیحہ ہوچکی ہےتو ان الفاظ سے ایک طلاق رجعی  واقع  ہوگئی ،جس میں دورانِ عدت  رجوع کی گنجائش ہے (بشرطیکہ اس سے پہلے مزید کوئی طلاق نہ دی ہو)،رجوع کرنے کی صورت میں نکاح بحال رہے گا، اور  اگر عورت غیر مدخول بہا ہےتو پھر ایک طلاق بائنہ ہوکر نکا ح ٹوٹ جائے گا،اس صورت میں گھر بسانے کے لیے نکاح کی تجدید ضروری ہوگا،بہرحال رجوع یا تجدید نکاح ،دونوں صورتوں میں شوہر آئندہ کے لیے دو طلاق کا مالک  رہے گا۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"امرأة قالت لزوجها تريد أن أطلق نفسي فقال الزوج ‌نعم فقالت المرأة طلقت إن كان الزوج نوى تفويض الطلاق إليها تطلق واحدة وإن عنى بذلك طلقي نفسك إن استطعت لا تطلق."

(کتاب الطلاق،الباب الثالث في تفويض الطلاق،الفصل الثالث،ج:1،ص:402،ط:دار الفکر)

فتاویٰ شامی میں ہے: 

"(‌كنايته) عند الفقهاء (ما لم يوضع له) أي الطلاق (واحتمله) وغيره (ف) الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب."

(کتاب الطلاق، باب الکنایات، ج: 3، ص: 296، ط: سعید)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511100371

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں