بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تالاب میں چھپکلی گرنے کی صورت میں پانی کا حکم


سوال

 ہمارے گھر میں  ایک تالاب ہے اس کے منہ کے اوپر باریک سا کپڑا  رکھا ہواتھا پائپ سے اس کے اندر پانی بھر رہا تھا آدھے گھنٹے بعد جب ہم نے دیکھا تالاب بھرا ہوا  تھا اور کپڑے کے اوپر چھپکلی مری ہوئی پڑی تھی جس کا جسم سوج بھی چکا تھا،اب تالاب کے پانی کا کیا حکم ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگر  تالاب  میں گرنے والی چھپکلی چھوٹی ہے اور اس میں بہنے والا خون نہیں ہے تو اس  کے مرنے کی صورت میں تالاب  کا پانی ناپاک  نہیں ہوگا، لیکن وہ اگر چھپکلی بڑی ہو (جس میں بہنے والا خون ہو) تو  اس کے مرجانے کی صورت میں تالاب  کو دیکھا جائے گا، اگر وہ (225) اسکوائر فٹ یا اس   سے بڑا ہو تو  پانی ناپاک نہیں ہوگا۔ اور اگر  (225)  اسکوائر فٹ  سے كم ہو  تو  پانی ناپاک ہوگا اوراس   کا پورا پانی نکالنا ضروری ہوگا،  اس دوران  اس پانی سے وضو  یا غسل کرکے جو نمازیں ادا کی گئیں ہیں  ان کا اعادہ بھی  کرنا ہوگا، اور جو کپڑے  اور برتن دھوئے گئے ہیں  وہ دوبارہ پاک کرنے ہوں گے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(ويجوز) رفع الحدث (بما ذكر وإن مات فيه) أي الماء ولو قليلا (غير دموي  كزنبور) وعقرب وبق: أي بعوض، وقيل: بق الخشب. وفي المجتبى: الأصح في علق مص الدم أنه يفسد ومنه يعلم حكم بق، وقراد وعلق. وفي الوهبانية دود القز وماؤه وبزره وخرؤه طاهر كدودة متولدة من نجاسة (ومائي مولد) ولو كلب الماء وخنزيره (كسمك وسرطان) وضفدع إلا بريا له دم سائل، وهو ما لا سترة له بين أصابعه، فيفسد في الأصح كحية برية، إن لها دم وإلا لا (وكذا) الحكم (لو مات) ما ذكر (خارجه وبقي فيه) في الأصح، فلو تفتت فيه نحو ضفدع جاز الوضوء به لا شربه لحرمة لحمه

(قوله: وإلا لا) أي وإن لم يكن للضفدع البرية والحية البرية دم سائل فلا يفسد".

(کتاب الطہارۃ،باب المیاہ،ج:1،ص:183،سعید)

حلبی کبیر میں ہے:

"وإذا کان الحوض عشراً في عشر فهو کبیر لا یتنجس بوقوع النجاسة ... إذا لم یرلها أثر".

(کتاب الطہارۃ،فصل فی احکام الحیاض،ص:98،سہیل اکیڈمی)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وإذا وجد في البئر فأرة أو غيرها ولا يدرى متى وقعت ولم تنتفخ أعادوا صلاة يوم وليلة إذا كانوا توضئوا منها وغسلوا كل شيء أصابه ماؤها وإن كانت قد انتفخت أو تفسخت أعادوا صلاة ثلاثة أيام ولياليها وهذا عند أبي حنيفة - رحمه الله - وقالا: ليس عليهم إعادة شيء حتى يتحققوا متى وقعت. كذا في الهداية وإن علم وقت وقوعها يعيدون الوضوء والصلاة من ذلك الوقت بالإجماع".

(کتاب الطہارۃ،الباب الثالث فی المیاہ،ج:1،ص؛20،دارالفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100054

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں