بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سسرال والوں کے اصرار پہ اسقاطِ حمل


سوال

 کیا فرماتے ہیں اس مسئلہ کے متعلق  مفتیانِ عظام:

عورت کو جب حمل ٹھہرجائے اور وہ ابتدائی دنوں میں ہی مانعِ حمل ادویات و نسخہ جات استعمال کرکے حمل کو ساقط کردے۔ جس کی وجہ سے عورت کے اندرونی معاملات خاصے متاثر ہوچکے ہوں۔ تو ایسے میں اس عورت کے لیے شریعت کا کیا حکم ہے؟ اور اس عمل کے متعلق شریعت کی تعلیمات کیا ہیں؟ (جب کہ یہ عمل عورت اپنے دلی شوق نہیں، بلکہ سسرال والوں کی ضد پر کررہی ہے) تو اس متعلق شرعی حکم کیا  ہے؟

جواب

 حمل سے عورت کی جان کو خطرہ ہو یا کسی شدید مضرت کا اندیشہ ہو، یا حمل سے عورت کا دودھ بند ہوجائے یا خراب ہوجائے جس سے پہلے بچے کو نقصان ہو اور بچے کے والد کی اتنی گنجائش نہ ہو کہ وہ اجرت پر دودھ پلانے والی عورت مقرر کرسکے تو ایسے اعذار کی بنا پر حمل میں روح پڑجانے سے  پہلے (جس کی مدت تقریباً چار ماہ ہے) حمل ساقط کرنے کی گنجائش ہے، اور چار ماہ کے بعد کسی صورت میں اسقاطِ حمل جائزنہیں ہے، اور شدید عذر نہ ہو تو پھر حمل کو ساقط کرنا مکروہ ہے، اس لیے صرف بچے کی شیرخوارگی کی وجہ سے یا محض سسرال والوں کے اصرار پہ یا معاشی حالات کے خوف سے  جب کہ مذکورہ اعذار میں سے کوئی عذر نہ ہو حمل ساقط  کروانا درست نہیں، اگر مذکورہ اعذار میں سے کوئی عذر تھا توپھر گنجائش ہوگی۔

مذکورہ عورت کے شوہر کو چاہیے کہ وہ اپنے گھر والوں کو اس حوالے سے بے جا اصرار سے روکیں، اور یہ حق سسرال والوں کا نہیں ہے کہ وہ عورت کو مجبور کریں۔ البتہ اگر شوہر بھی سسرال والوں کے ساتھ ہے اور اس نے ہی بیوی کا حمل ساقط کروایا ہے اور عورت ساقط نہیں کرنا چاہ رہی تھی اور حمل کے بالکل ابتدائی ایام تھے تو امید ہے کہ عورت گناہ گار نہیں ہوگی، تاہم شوہر کا یہ عمل درست نہیں تھا۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"امرأة مرضعة ظهر بها حبل وانقطع لبنها وتخاف على ولدها الهلاك وليس لأبي هذا الولد سعة حتى يستأجر الظئر يباح لها أن تعالج في استنزال الدم ما دام نطفةً أو مضغةً أو علقةً لم يخلق له عضو، وخلقه لا يستبين إلا بعد مائة وعشرين يوماً: أربعون نطفةً وأربعون علقةً وأربعون مضغةً، كذا في خزانة المفتين. وهكذا في فتاوى قاضي خان".

(5 / 356، الباب الثامن عشر في التداوي والمعالجات، کتاب الکراهیة، ط:رشیدیه) 

فتاوی شامی میں ہے:

"وقالوا: يباح إسقاط الولد قبل أربعة أشهر ولو بلا إذن الزوج.

(قوله: وقالوا إلخ) قال في النهر: بقي هل يباح الإسقاط بعد الحمل؟ نعم! يباح ما لم يتخلق منه شيء ولن يكون ذلك إلا بعد مائة وعشرين يوماً، وهذا يقتضي أنهم أرادوا بالتخليق نفخ الروح وإلا فهو غلط؛ لأن التخليق يتحقق بالمشاهدة قبل هذه المدة، كذا في الفتح. وإطلاقهم يفيد عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذكورة على إذن الزوج. وفي كراهة الخانية: ولا أقول بالحل إذ المحرم لو كسر بيض الصيد ضمنه؛ لأنه أصل الصيد، فلما كان يؤاخذ بالجزاء فلا أقل من أن يلحقها إثم هنا إذا سقط بغير عذرها اهـ قال ابن وهبان: ومن الأعذار أن ينقطع لبنها بعد ظهور الحمل وليس لأبي الصبي ما يستأجر به الظئر ويخاف هلاكه. ونقل عن الذخيرة لو أرادت الإلقاء قبل مضي زمن ينفخ فيه الروح هل يباح لها ذلك أم لا؟ اختلفوا فيه، وكان الفقيه علي بن موسى يقول: إنه يكره، فإن الماء بعدما وقع في الرحم مآله الحياة فيكون له حكم الحياة كما في بيضة صيد الحرم، ونحوه في الظهيرية قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة على حالة العذر، أو أنها لاتأثم إثم القتل اهـ. وبما في الذخيرة تبين أنهم ما أرادوا بالتحقيق إلا نفخ الروح، وأن قاضي خان مسبوق بما مر من التفقه، والله تعالى الموفق اهـ كلام النهر ح".

(3 / 176، مطلب في إسقاط الحمل، باب نکاح الرقیق، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144202200858

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں