بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سرین کے بالوں کو کاٹنے کا حکم


سوال

کیا سرین کے اندر کے بال کاٹنا ضروری ہے ؟ اگر ہاں تو کس طرح اور کس حد تک کاٹنا چاہیے ؟

جواب

زیرِ ناف بال صاف کرتے ہوئے پاخانے کے مقام (پچھلی شرم گاہ) کے بال بھی کاٹنا ضروری ہے، فتاویٰ شامی اور فتح الباری میں ہے کہ ان کی صفائی کا زیادہ اہتمام کرنا چاہیے؛ کیوں کہ بوقتِ ضرورت صرف  پتھر سے استنجا کرنے کی صورت میں (جب کہ بال صاف نہ کیے جائیں) یہاں نجاست کے اجزا کا رہ جانا غالب ہے۔

زیر ناف بالوں  کی حد ناف کے  نیچے  پیڑو کی ہڈی سے لے کر شرم گاہ اور اس کے آس پاس کا حصہ، خصیتین، اسی طرح پاخانہ کے مقام کے آس پاس کاحصہ اور رانوں کا صرف وہ حصہ جہاں نجاست ٹھہرنے  یا  لگنے کا خطرہ ہو، یہ تمام بال کاٹنے کی  حد  ہے۔

پھر مرد   کے حق میں  زیرِ ناف بال کاٹنے  کے لیے بلیڈ  یا استرے کا استعمال  بہتر ہے؛ کیوں کہ اس سے بال جڑ   سے ختم ہوجاتے  ہیں اور  طبی اعتبار سے بھی یہی بہترہے اور عورتوں کے لیے  بالوں کو اچکنا یا پاؤڈر  یا کریم کا استعمال بہتر ہے۔

فتح الباري - لابن حجر - میں ہے:

"وقال أبو شامة: "العانة" الشعر النابت على الركب بفتح الراء والكاف، و هو ما انحدر من البطن فكان تحت الثنية وفوق الفرج، و قيل: لكل فخذ ركب، و قيل: ظاهر الفرج، و قيل: الفرج بنفسه سواء كان من رجل أو امرأة، قال: و يستحب إماطة الشعر عن القبل والدبر بل هو من الدبر أولى خوفًا من أن يعلق شيء من الغائط فلايزيله المستنجي إلا بالماء ولايتمكن من إزالته بالاستجمار، قال: و يقوم التنور مكان الحلق، وكذلك النتف والقص، و قد سئل أحمد عن أخذ العانة بالمقراض، فقال: أرجو أن يجزئ، قيل: فالنتف؟ قال: و هل يقوى على هذا أحد؟ و قال ابن دقيق العيد: قال أهل اللغة: "العانة" الشعر النابت على الفرج، و قيل: هو منبت الشعر".

(باب قص الشارب، ج:10، ص:343، ط:دار المعرفة)

عون المعبود شرح سنن أبي داود"  میں ہے:

"( وحلق العانة ): قال النووي : المراد بالعانة الشعر الذي فوق ذكر الرجل وحواليه وكذا الشعر الذي حوالي فرج المرأة، ونقل عن أبي العباس بن سريج: أنه الشعر النابت حول حلقة الدبر، فتحصل عن مجموع هذا استحباب حلق جميع ما على القبل والدبر وحولهما، لكن قال ابن دقيق العيد: قال أهل اللغة: العانة: الشعر النابت على الفرج، وقيل: هو منبت الشعر، فكأن الذي ذهب إلى استحباب حلق ما حول الدبر ذكره بطريق القياس".

(كتاب الطهارة، باب السواك من الفطرة، ج:1، ص:54، ط:دار الكتب العلمية)

شرح النووی علی مسلم میں ہے:

"وأما الاستحداد فهو حلق العانة سمي استحداداً؛ لاستعمال الحديدة وهي الموسى، وهو سنة، والمراد به نظافة ذلك الموضع، والأفضل فيه الحلق، ويجوز بالقص والنتف والنورة، والمراد بالعانة: الشعر الذي فوق ذكر الرجل وحواليه وكذاك الشعر الذي حوالي فرج المرأة".

 (شرح النووي علی مسلم، کتاب الطهارة، باب خصال الفطرة، ج:3، ص:148، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

فتاوى ہندیه میں ہے:

"ويبتدئ في حلق العانة من تحت السرة، ولو عالج بالنورة في العانة يجوز، كذا في الغرائب".

  (کتاب الکراهیة، الباب التاسع عشر في الختان والخصاء وحلق المرأة شعرها ووصلها شعر غيرها،ج:5، ص:358، ط:دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"والعانة: الشعر القريب من فرج الرجل والمرأة، ومثلها شعر الدبر، بل هو أولى بالإزالة ؛ لئلايتعلق به شيء من الخارج عند الاستنجاء بالحجر".

(کتاب الحج، فصل في الإحرام و صفة المفرد، ج:2، ص:481، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411102808

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں