کیا سکول ڈیوٹی میں غفلت کی صورت میں اسکا ازالہ اس غفلت کے بقدر رقم صدقہ کرنے سے ہو جائے گا۔یاسرکاری خزانے میں رقم جمع کرانے ہوگی ؟اورسرکاری خزانے میں رقم کیسے جمع کرائے؟
صورت مسئولہ میں اگر غفلت سے مراد سرکاری ڈیوٹی کے دوران غیر حاضری یا مقررہ اوقات سے کم وقت دینا مراد ہے یعنی سائل کے لیے ڈیوٹی کے جو اوقات مقرر تھے ان اوقات میں سائل نے جتنی کمی کی ہے یا غیر حاضری کی ہے اور ان کی بھی تنخواہ وصول کرلی ہے، تو حاصل کردہ تنخواہ میں سے ان غیر حاضری کے ایام اور اوقات کے بقدر رقم واپس کرنا لازم ہے۔
نیز یہ رقم صدقہ نہیں کی جائے گی بلکہ متعلقہ محکمہ جہاں سے سائل کو تنخواہ جاری کی جاتی تھی اس محکمے کو غیرحاضری اور اوقات میں کمی کے بقدر رقم واپس جمع کرادی جائے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(والثاني) وهو الأجير (الخاص) ويسمى أجير وحد (وهو من يعمل لواحد عملا مؤقتا بالتخصيص ويستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة وإن لم يعمل كمن استؤجر شهرا للخدمة أو) شهرا (لرعي الغنم) المسمى بأجر مسمى بخلاف ما لو آجر المدة بأن استأجره للرعي شهرا حيث يكون مشتركا إلا إذا شرط أن لا يخدم غيره ولا يرعى لغيره فيكون خاصا وتحقيقه في الدرر وليس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل فتاوى النوازل.
(قوله: وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلا يوما يعمل كذا فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا له أن يؤدي السنة أيضا..... (قوله ولو عمل نقص من أجرته إلخ) قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواة بدرهم وهو يعلم فهو آثم، وإن لم يعلم فلا شيء عليه وينقص من أجر النجار بقدر ما عمل في الدواة."
(كتاب الإجارة،مطلب ليس للأجير الخاص أن يصلي النافلة،6/ 69،ط:سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144401100686
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن