بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سودی رقم کا حکم


سوال

میرے پاس کچھ سودی رقم ہے جو میں کسی کو دینا چاہتی ہوں لیکن سود جب مسلمانوں پر حرام ہے تو اب میں یہ پیسے کس کو دے سکتی ہوں؟

جواب

سودی رقم کے بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ اسے اصل مالک تک پہنچایا جائے اور مالک کا انتقال ہوچکا ہو تو اس کے ورثہ تک پہنچایا جائے، اگر   اس کے مالک یا ورثاء تک پہنچانا ممکن نہ ہو  تو بغیر ثواب کی نیت کے، اس کے وبال سے بچنے کی نیت سے کسی غریب مسلمان کو صدقہ کردی جائے۔

العرف الشذي شرح سنن الترمذي (1/ 38):

إن ها هنا شيئان:

أحدهما: ائتمار أمر الشارع والثواب عليه.

والثاني: التصدق بمال خبيث، والرجاء من نفس المال بدون لحاظ رجاء الثواب من امتثال الشارع، فالثواب إنما يكون على ائتمار الشارع، وأما رجاء الثواب من نفس المال فحرام، بل ينبغي لمتصدق الحرام أن يزعم بتصدق المال تخليص رقبته ولا يرجو الثواب منه، بل يرجوه من ائتمار أمر الشارع، وأخرج الدارقطني في أواخر الكتاب: أن أبا حنيفة رحمه الله سئل عن هذا فاستدل بما روى أبو داود من قصة الشاة والتصدق بها.

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144201200535

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں