بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سونےکا زیورکچھ رقم نقد اور باقی قسط وار ادا کرکےخریدنے کا حکم


سوال

زید نے5تولہ سونے کا زیور 250000 میں خریدا، فی الحال نقدایک لاکھ روپے دےدیتاہے اورڈیڑھ لاکھ روپے ماہانہ10000روپے قسط وار اداکرتاہے ، کیا اس طرح خریدنا درست ہے؟

جواب

واضح رہےکہ   سونے چاندی کی روپیہ پیسے کے بدلے  خرید وفروخت شرعاً "بیعِ صرف" کہلاتی ہے، اور بیعِ صرف میں لین دین،  نقد  اور ہاتھوں ہاتھ ہونا ضروری ہے، یعنی ایک ہی مجلس میں قیمت کی رقم دینا اور سونا  چاندی وصول کرنا  ضروری ہے اور کسی بھی جانب سے ادھار ( خواہ کل رقم ادھار ہو یا بعض رقم ادھار  ہو )  ربا(سود)  کے دائرے میں آنے کی بنا پر ناجائز و حرام ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سوناخریدتے وقت زید  جو رقم نقد ادا کرے گا، اس کے بدلے اتنے سونے کی خرید وفروخت درست ہوجائے گی اور جس قدر قسطوں پر معاملہ ہوگا  اس میں چوں  کہ سونے کی قیمت پر  عقد  ِبیع(خریدوفروخت) کی مجلس میں قبضہ نہیں ہوگا  تو یہ معاملہ شرعاجائز  نہیں ہوگا، اگر اس طرح ادھار کا معاملہ کیا ہو تو   اس معاملہ کو ختم کرنا شرعاً ضروری ہے۔

    فتاوی شامی میں ہے:

"(ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) أي التساوي وزنا (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق) وهو شرط بقائه صحيحًا على الصحيح (إن اتحد جنسًا وإن) وصلية (اختلفا جودةً وصياغةً) لما مر في الربا". 

(کتاب البیوع، باب الصرف، 257/5، ط: سعید)

فتح القدیر  میں ہے:

"(ولا بد من قبض العوضين قبل الافتراق) لما روينا، ولقول عمر -رضي الله عنه-: وإن استنظرك أن يدخل بيته فلاتنظره، ولأنه لا بد من قبض أحدهما ليخرج العقد عن الكالئ بالكالئ ثم لا بد من قبض الآخر تحقيقًا للمساواة فلايتحقق الربا، ولأن أحدهما ليس بأولى من الآخر فوجب قبضهما سواء (قوله: ولا بد من قبض العوضين قبل الافتراق) بإجماع الفقهاء".

( باب الصرف، 6/260، ط: رشیدیة)

  فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144401100824

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں