بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سونے کا کاروبار اقساط میں کرنا


سوال

کیا سونے کا کاروبار اقساط پر جائز ہے ؟

ایک آدمی نقد بازارسے سونا خرید کر لوگوں کو قسطوں پر دیتا ہے ،مثلا سونا ایک لاکھ مالیت کا خرید کر اسی سونے کو قسطوں پر دوسرے آدمی کو ڈیڑھ لاکھ کا دیتا ہے ،کیا یہ طرز عمل جائز ہے ؟از روئے شرع جواب عنایت فرمائیں ،یہ بھی وضاحت فرمائیں ،آیا یہ مسئلہ متفق علیہ ہے یا مختلف فیہ ؟

جواب

  واضح رہے کہ   کرنسی نوٹ ثمنِ اصطلاحی  ہیں،اس لیے کرنسی نوٹ(مثلاً روپے ) کے بدلے  سونا یا چاندی کی خریدو فروخت   شرعاً "بیعِ صرف" ہے،     اس میں دونوں طرف سے نقد ادائیگی ضروری ہوتی ہے،   لہذا  جس طرح سونا چاندی کی خریدوفروخت میں ادھار ناجائز ہے، اسی طرح  روپے کے بدلے سونا چاندی کی خریدوفروخت میں  بھی ادھار کا معاملہ شرعاً جائز نہیں ہے  بلکہ سونے چاندی کے معاملات میں لین دین،  نقد  اور ہاتھوں ہاتھ ہونا ضروری ہے، یعنی ایک ہی مجلس میں قیمت کی رقم دینا اور سونا  چاندی وصول کرنا  ضروری ہے ،اور کسی بھی جانب سے ادھار، ربوا (سود) کے دائرے میں آنے کی بنا پر ناجائز وحرام ہے۔

لہٰذا صورت مسئولہ میں مذکورہ سونے کا کاروبار اقساط پر کرنا جائز نہیں ۔

مذکورہ مسئلہ میں بعض دیگر حضرات کا اختلاف بھی ہے ،ان کے نزدیک سونے کا کاروبار  قسطوں پر   کرنا جائز ہے ۔

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"(ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل ) أي التساوي وزنا (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق) وهو شرط بقائه صحيحا على الصحيح (إن اتحد جنسا وإن) وصلية (اختلفا جودة وصياغة) لما مر في الربا (وإلا) بأن لم يتجانسا (شرط التقابض) لحرمة النساء.

(قوله: بالبراجم) جمع برجمة بالضم: وهي مفاصل الأصابع ح عن جامع اللغة. (قوله: لا بالتخلية) أشار إلى أن التقييد بالبراجم للاحتراز عن التخلية، واشتراط القبض بالفعل لا خصوص البراجم، حتى لو وضعه له في كفه أو في جيبه صار قابضا.

(قوله: قبل الافتراق) أي افتراق المتعاقدين بأبدانهما، والتقييد بالعاقدين يعم المالكين والنائبين، وتقييد الفرقة بالأبدان يفيد عموم اعتبار المجلس  ."

(كتاب البيوع، باب الصرف،ج:5، ص:257- 259، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100637

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں