بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر پر بیوی کے سونے کی زکوۃ


سوال

میں نے2012 میں شادی کی تھی اور بیگم صاحبہ اپنے ساتھ  کم وبیش 20 گرام سونا لائی  تھیں ،2012 سے 2017 تک میں سعودی عرب میں رہا ،میں نے1433, 34, 35, 36, 37, 38, 39, 40, 41, 42کی تاریخوں  کی قیمت نکال کر  انگریزی کلینڈرپر تبدیل کر کے  قیمت نکالی اور پھر ان قیمتوں کو اس وقت کے موجود سونے کے وزن سے ضرب کر کے  سو نے کی مالیت نکالی اور سونے کی  مالیت کی ڈھائی فیصد حساب کی ، مسئلہ یہ ہے کہ2018 میں مجھ پر 75000روپے قرض تھا،جو کافی مہینے رہا  اور2021میں تقریبا30000 قرض تھا، جوکہ کافی مہینے رہا  تو کیا میں 2018 اور 2021 کے سال زکوۃ نکالوں گا ؟ اور پچھلے سالوں کی زکوۃ نکالنے کا طریقہ کار  جو میں نے استعمال کیا  کیا وہ صحیح ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ بیوی  شادی میں اپنےساتھ جو سونا لاتی ہے اور اسی طرح اگر بیوی کو مہر میں سونا دیا جائے تو یہ سب سونا بیوی کی ملکیت  ہو تا ہے  اور اس کی زکاۃ ادا کرنا بیو ی ہی کے ذمہ لازم ہو تا ہے نہ شوہر کے ذمہ، اگر بیوی کے پاس زکوۃ کی ادائیگی کے لیے نقدی موجود نہ ہو تو شوہر اس کی اجازت سے زکوٰۃ ادا کر سکتا ہے،تاہم شوہر بھی اگر ادا نہ کرے تو سونے میں ہی سے زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہوگا۔

صورت مسئولہ میں بیس گرام سونے کی مقدار ایک  اعشاریہ بہتر تو لہ ہو تی ہے لہذا اگر صرف سونا ہی ہے اس کے ساتھ کوئی نقدی موجود نہیں ہےتو   بیس گرام سونے پر زکاۃ نہیں آئی گی ،لیکن اگر  سونے  کے ساتھ  کوئی اور قابلِ زکاۃ مال موجود ہو، تو پھر صرف سونے کے نصاب کا اعتبار نہیں کیا جائے گا، بلکہ ایسی صورت میں چاندی کے نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی) کی قیمت کا اعتبار کیا جائے گا، لہٰذا اگر سونے اور دوسرے قابلِ زکاۃ مال کو ملا کر مجموعی قیمت ساڑے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہوجائے تو اس پر زکاۃ ہوگی۔

بدائع الصنائع  میں ہے :

"فأما إذا كان له الصنفان جميعاً فإن لم يكن كل واحد منهما نصاباً بأن كان له عشرة مثاقيل ومائة درهم، فإنه يضم أحدهما إلى الآخر في حق تكميل النصاب عندنا ... (ولنا) ما روي عن بكير بن عبد الله بن الأشج أنه قال: مضت السنة من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم بضم الذهب إلى الفضة والفضة إلى الذهب في إخراج الزكاة ؛ ولأنهما مالان متحدان في المعنى الذي تعلق به وجوب الزكاة فيهما وهو الإعداد للتجارة بأصل الخلقة والثمنية، فكانا في حكم الزكاة كجنس واحد ؛ ولهذا اتفق الواجب فيهما وهو ربع العشر على كل حال وإنما يتفق الواجب عند اتحاد المال.
وأما عند الاختلاف فيختلف الواجب وإذا اتحد المالان معنىً فلا يعتبر اختلاف الصورة كعروض التجارة، ولهذا يكمل نصاب كل واحد منهما بعروض التجارة ولا يعتبر اختلاف الصورة، كما إذا كان له أقل من عشرين مثقالاً وأقل من مائتي درهم وله عروض للتجارة ونقد البلد في الدراهم والدنانير سواء فإن شاء كمل به نصاب الذهب وإن شاء كمل به نصاب الفضة، وصار كالسود مع البيض، بخلاف السوائم؛ لأن الحكم هناك متعلق بالصورة والمعنى وهما مختلفان صورة ومعنى فتعذر تكميل نصاب أحدهما بالآخر."

(فصل مقدار الواجب في زکاۃ الذھب،2/ 19،دار الكتب العلمية)

بدائع الصنائع میں ہے :

"أن الزكاة عبادة عندنا والعبادة لا تتأدى إلا باختيار من عليه إما بمباشرته بنفسه، أو بأمره، أو إنابته غيره فيقوم النائب مقامه فيصير مؤديا بيد النائب."

(الشرائط التی ترجع علی  من علیہ المال ، 53/2،دار الكتب العلميہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309101263

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں