بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سودی رقم کا مصرف اور استعمال کرنے کا حکم


سوال

ہم سودی رقم کہاں استعمال کر سکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے سودی رقم کا لین دین  کرنا، یا اُس کا معاہدہ وغیرہ کرنا سب ناجائز ہے، لہذا اولاً تو سودی رقم وصول ہی نہ کی جائے، اور اگر وصول کرلی گئی ہےتو جس سے وصول کی گئی ہےاُسے واپس کردی جائے، اور اگر واپس کرنا مشکل یا ناممکن ہوتو اُس سودی رقم کو کسی غریب شخص کو ثواب کی نیت کے بغیر دینا واجب ہے، اپنے استعمال میں لانا یا ثواب کی نیت سے کہیں صدقہ وغیرہ کرنا درست نہیں ہے۔

"معارف السنن" میں ہے:

"قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقهائنا کالهدایة وغیرها: أن من ملك بملك خبیث، ولم یمكنه الرد إلى المالك، فسبیله التصدقُ علی الفقراء ... قال: و الظاهر أن المتصدق بمثله ینبغي أن ینوي به فراغ ذمته، ولایرجو به المثوبة."

(أبواب الطهارة، باب ما جاء: لاتقبل صلاة بغیر طهور، ج:1، ص:34، ط: المکتبة الأشرفیة)

''فتاوی شامی'' میں ہے:

"والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه".  

( كتاب البيوع، باب البيع الفاسد 5/ 99 ط: سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144505101275

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں