بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سودی اور غیر سودی بینک سے قسطوں پر گاڑی لینا


سوال

جو بینک اس بات کے دعوے دار ہیں کہ وہ سودی لین دین نہیں کرتے (جیسا کہ بینک اسلامی اور میزان بینک وغیرہ) ان بینکوں سے قسطوں پر گاڑی وغیرہ لینا جائز ہے یا نہیں؟ اور یہی (قسطوں والا) عقد اگر سودی لین دین کرنے والے بینکوں کے ساتھ کیا جائے تو پھر کیا حکم ہے؟ یہ مسئلہ دو تین علماء سے پوچھا ہے مگر انکی رائے میں باہم اتفاق نہ ہونے کی بناء پر تسلی نہیں ہو رہی. براہ مہربانی وضاحت فرما دیں۔

جواب

قسطوں پر گاڑی یا کوئی اور چیز اس صورت میں خریدنے کی شرعاً اجازت ہے کہ خریداری کے وقت عاقدین اس چیز  کی قیمت مقرر کرلیں اور کسی قسط کی ادائیگی میں تاخیر   کی وجہ سے کسی قسم کا اضافہ وصول نہ کیا جائے۔

رہی بات بینک سے گاڑی خریدنے کی تو اس میں درج ذیل دو شرعی قباحتیں ہیں، جن کی وجہ سے بینک (خواہ اسلامی ہو یا کنونشنل) سے قسطوں پر گاڑی لینا جائز نہیں:

١) پہلی قباحت یہ   ہے کہ بینک سے خریدنے والے اور بینک کے درمیان معاہدہ کے تحت دو عقد ہوتے ہیں، ایک بیع(خریدوفروخت) اور دوسرا اجارہ (کرایہ داری) کا عقدہوتا ہے، اور یہ طے پاتاہے کہ اقساط میں سے اگر کوئی قسط وقتِ مقررہ پر جمع نہیں کرائی گئی تو بینک کی جانب سے مقرر ہ جرمانہ/صدقہ  خریدار ادا کرنے کا پابند ہو گا، جو کہ شرعاً جائز نہیں ہے۔

٢) دوسری قباحت یہ ہے کہ بینک سے قسطوں پر خریدتے وقت دو عقد بیک وقت ہوتے ہیں ،ایک عقد بیع کا ہوتا ہے جس کی بنا پر قسطوں کی شکل میں ادائیگی خریدار پر واجب ہوتی ہے اور اسی کے ساتھ ہی (اجارہ) کرائے کا معاہدہ بھی ہوتا ہے، جس کی بنا پر ہر ماہ کرائے کی مد میں بینک خریدار سے کرایہ بھی وصول کرتا ہے، اور یہ دونوں عقد ایکدوسرے سے مشروط ہوتے ہیں  جو کہ شرعاناجائز ہیں۔ 

پس مذکورہ بالا شرعی قباحتوں کی بنا پر  بینک سے  لیزنگ پر گاڑی لینا جائز نہیں ہے۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبي هريرة قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌عن ‌بيعتين في بيعة. رواه مالك والترمذي والنسائي."

(کتاب البیوع ، باب الربا جلد ۲ ص :۸۶۷ ط : المکتب الاسلامي ۔ بیروت)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيعتين في صفقة واحدة. رواه في شرح السنة."

(کتاب البیوع ، باب الربا جلد۲ ص : ۸۶۷ ط : المکتب الاسلامي ۔ بیروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله لا بأخذ مال في المذهب)......إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي."

(کتاب الحدود ، باب التعذیر جلد ۴ ص : ۶۱ ط : دارالفکر)

فقط و اللہ اعلم   


فتوی نمبر : 144308101734

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں