بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کی اجازت کے بغیر بیوی کے لیے شوہر کے مال سے قربانی کرنے کا حکم


سوال

شوہر کی اجازت کے بغیر بیوی شوہر کے مال میں سے قربانی کر سکتی ہے کہ نہیں، جب کہ بیوی پر قربانی واجب ہے صاحبِ نصاب ہونے کی وجہ سے؟

جواب

اگر  شوہر  کی طرف سے صراحتاً یا دلالۃً اجازت نہ ہو تو بیوی کے لیے شوہر کے مال سے قربانی کرنا جائز نہیں ہے بلکہ بیوی پر اپنے مال میں سے ہی قربانی کرنا لازم ہے۔ اور اگر شوہر کی طرف سے دلالۃً اجازت ہو یعنی علم ہونے پر وہ ناراض نہ ہو اور بیوی اسراف بھی نہ کرے، بلکہ اعتدال کے ساتھ معروف طریقہ سے قربانی کرے تو قربانی ادا ہوجائے گی۔

المبسوط للسرخسی میں ہے:

(قال الشيخ الإمام الأجل الزاهد شمس الأئمة السرخسي إملاء:) (اعلم) بأن الاغتصاب أخذ مال الغير بما هو عدوان من الأسباب، واللفظ مستعمل لغة في كل باب مالا كان المأخوذ أو غير مال. يقال: غصبت زوجة فلان وولده، ولكن في الشرع تمام حكم الغصب يختص بكون المأخوذ مالا متقوما. ثم هو فعل محرم؛ لأنه عدوان وظلم، وقد تأكدت حرمته في الشرع بالكتاب والسنة.
أما الكتاب فقوله تعالى: {يا أيها الذين آمنوا لا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل إلا أن تكون تجارة عن تراض منكم} [النساء: 29] وقال تعالى: {إن الذين يأكلون أموال اليتامى ظلما إنما يأكلون في بطونهم نارا} [النساء: 10] وقال - صلى الله عليه وسلم -: «لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيبة نفس منه» وقال - صلى الله عليه وسلم -: «سباب المسلم فسق، وقتاله كفر، وحرمة ماله كحرمة نفسه» وقال - صلى الله عليه وسلم - في خطبته: «ألا إن دماءكم وأعراضكم وأموالكم حرام عليكم كحرمة يومي هذا في شهري هذا في مقامي هذا» (فثبت) أن الفعل عدوان محرم في المال كهو في النفس؛ ولهذا يتعلق به المأثم في الآخرة كما قال - صلى الله عليه وسلم -: «من غصب شبرا من أرض طوقه الله تعالى يوم القيامة من سبع أرضين» إلا إن المأثم عند قصد الفاعل مع العلم به.
فأما إذا كان مخطئا بأن ظن المأخوذ ماله أو كان جاهلا بأن اشترى عينا ثم ظهر استحقاقه لم يكن آثما لقوله - صلى الله عليه وسلم -: «رفع عن أمتي الخطأ والنسيان» والمراد المأثم. (المبسوط للسرخسي، ج:11، ص:49، ط:دار المعرفة - بيروت)
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112200327

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں