بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کے انتقال کے بعد بیوہ کے لیے قربانی کا حکم


سوال

 ہمارے رشتہ داروں میں ایک خاتون ہیں،  جن کے شوہر وفات پاچکے  ہیں اور ان کی اپنے شوہر سے کوئی اولاد نہیں ہے، ان کے شوہر کی وفات عید الاضحی سے کچھ دن پہلے ہوگئی تھی،   اب اس خاتون کے سسرالی رشتے دار ان کو دو قربانیاں کرنے کا کہہ رہے ہیں  ، اور ان کو  وجہ یہ بتائی جار ہی  ہے  کہ ان کے نام کی قربانی نہیں ہوسکتی ، انہوں نے پچھلے سال بھی شوہر کے نام کی قربانی کی ہے اور اس سال بھی وہ شوہر کے نام کی قربانی کریں گی تو پھر اگلے سال وہ اپنے نام کی قربانی کر سکتی ہیں، ورنہ نہیں ، جب کہ میں نے آج تک ایسی کوئی  بات پڑھی  یا سنی نہیں ہے،  لہذا مجھے اس مسئلے میں آپ کی واضح راہ نمائی درکار ہے !

جواب

قربانی واجب ہونے کا نصاب وہی ہے جو صدقۂ فطر کے واجب ہونے کا نصاب ہے، یعنی جس عاقل، بالغ ، مقیم ، مسلمان  مرد یا عورت کی ملکیت میں قربانی کے ایام میں  بنیادی اخراجات اور قرض کی رقم منہا کرنے بعد ساڑھے  سات تولہ سونا، یا  ساڑھے باون تولہ  چاندی، یا اس کی قیمت کے برابر رقم ہو،  یا تجارت کا سامان، یا ضرورت  و استعمال سےزائد اتنا سامان  موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو، یا ان میں سے کوئی ایک چیز یا ان پانچ چیزوں میں سے بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر  ہوتو ایسے مرد وعورت پر قربانی واجب ہے۔

نیز قربانی میں ہر شخص کی اپنی ملکیت کا اعتبار ہے، بیوی پر شوہر کی طرف سے اور شوہر پر بیوی کی طرف سے قربانی کرنا واجب نہیں ہے۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں مذکورہ عورت اگر خود صاحبِ  نصاب ہے تو  اس پر اپنی طرف سے قربانی کرنا واجب ہے، اپنے مرحوم شوہر کی طرف سے قربانی کرنا واجب نہیں  ہے۔

مذکورہ خاتون کے سسرالی رشتہ دار جو بات کہہ رہے ہیں ، شرعًا ایسی کوئی بات ثابت نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 312) :

"و شرائطها: الإسلام والإقامة واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر).

(قوله: واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضاً يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية، ولو له عقار يستغله فقيل: تلزم لو قيمته نصاباً، وقيل: لو يدخل منه قوت سنة تلزم، وقيل: قوت شهر، فمتى فضل نصاب تلزمه. ولو العقار وقفاً، فإن وجب له في أيامها نصاب تلزم."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200702

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں