بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شوال کے مہینے میں عمرہ کرنے سے حج کی فرضیت کا حکم


سوال

  سعودی عرب میں ملازمت کے سلسلے میں مقیم ہوں، میرا سوال یہ ہے کہ اگر عیدالفطر کی چھٹیوں میں عمرہ ادا کروں تو کیا مجھ پر حج کی ادائیگی لازم ہو گی ؟ اور اگر میرے پاس حج کے لئے رقم نہیں ہے اور گورنمنٹ حج کا اجازت نامہ بھی جاری نہ کرے تو اس صورت میں میرے لئے شرعی حکم کیا ہے ؟ آیا مجھے عید کی چھٹیوں میں شوال میں عمرہ ادا کرنا چاہیے؟

جواب

واضح رہے کہ اگر کوئی ایسا شخص جس پر حج فرض نہ تھا،  وہ عید کے بعد شوال کے مہینے میں اس نے مکہ مکرمہ جاکر عمرہ کرلیا، اور اس کے پاس حج کے ایام تک قیام کے مصارف واسباب مہیا ہوں اور حکومت کی طرف سے اس کو حج تک رکنے کی اجازت بھی ہو اور اس نے پہلے حج فرض بھی نہ کیا ہو تو  اس پر حج فرض ہو جائے گا، اور اگر حج کے ایام تک قیام کے مصارف واسباب مہیا نہ ہوں، یا پھر قیام کے مصارف واسباب تو ہوں، لیکن حکومتِ سعودیہ کی طرف سے حج کے ایام تک قیام کرنے کی اجازت نہ ہو (جیساکہ موجودہ زمانہ میں ہوتا ہے)، تو اب اُس پر حج فرض نہیں ہوگا،اور جو شخص اپنا فرض حج پہلے کرچکا ہے، اس پر شوال میں عمرہ کرنے سے حج فرض نہیں ہوگا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں  چوں کہ سائل کے پاس حج کے لئے رقم نہیں ہے،اور گورنمنٹ  حج کا اجازت نامہ بھی جاری نہیں  کرتا،تو سائل  عیدالفطر کی چھٹیوں میں  اگرعمرہ ادا کرے گا تواس پر حج کی ادائیگی لازم نہیں ہوگی۔

البحر الرائق میں ہے:

"والثانية خمسة على الأصح: صحة البدن، وزوال الموانع الحسية عن الذهاب إلى الحج، وأمن الطريق، وعدم قيام العدة في حق المرأة، وخروج الزوج أو المحرم معها، والثالثة أعني شرائط الصحة أربعة: الإحرام بالحج، والوقت المخصوص، والمكان المخصوص، والإسلام."

(کتاب الحج، ج:2، ص:538،539، ط: دار الکتب العلمیة)

  فتاویٰ شامی میں ہے:

"(صحيح) البدن (بصير) غير محبوس وخائف من سلطان يمنع منه. (قوله: صحيح البدن) أي سالم عن الآفات المانعة عن القيام بما لا بد منه في السفر، فلايجب على مقعد ومفلوج وشيخ كبير لايثبت على الراحلة بنفسه وأعمى، وإن وجد قائداً ومحبوس، وخائف من سلطان لا بأنفسهم، ولا بالنيابة في ظاهر المذهب عن الإمام وهو رواية عنهما وظاهر الرواية عنهما وجوب الإحجاج عليهم، ويجزيهم إن دام العجز وإن زال أعادوا بأنفسهم.والحاصل: أنه من شرائط الوجوب عنده ومن شرائط وجوب الأداء عند هما وثمرة الخلاف تظهر في وجوب الإحجاج والإيصاء كما ذكرنا وهو مقيد بما إذا لم يقدر على الحج وهو صحيح فإن قدر ثم عجز قبل الخروج إلى الحج تقرر دينا في ذمته، فيلزمه الإحجاج، فلو خرج ومات في الطريق لم يجب الإيصاء لأنه لم يؤخر بعد الإيجاب ولو تكلفوا الحج بأنفسهم سقط عنهم وظاهر التحفة اختيار قولهما وكذا الإسبيجابي وقواه في الفتح ومشى على أن الصحة من شرائط وجوب الأداء اهـ من البحر والنهر، وحكى في اللباب اختلاف التصحيح وفي شرحه أنه مشى على الأول في النهاية وقال في البحر العميق إنه المذهب الصحيح وأن الثاني صححه قاضي خان في شرح الجامع واختاره كثير من المشايخ ومنهم ابن الهمام (قوله: بصير) فيه الخلاف المار كما علمته (قوله: غير محبوس) هذا من شروط الأداء كما مر والظاهر أنه لو كان حبسه لمنعه حقاً قادراً على أدائه لايسقط عنه وجوب الأداء.[تنبيه]ذكر في شرح اللباب عن شمس الإسلام أن السلطان ومن بمعناه من الأمراء ملحق بالمحبوس فيجب الحج في ماله الخالي عن حقوق العباد وتمامه فيه ولايخفى أن هذا إن دام عجزه إلى الموت وإلا فيجب عليه الحج بنفسه بعد زوال عذره وهو مقيد أيضاً بما إذا كان قادراً على الحج ثم عجز وإلا فلايلزمه الإحجاج على الخلاف المذكور آنفاً (قوله: يمنع منه) أي من الحج أي الخروج إليه ط."

(‌‌كتاب الحج، ج:2، ص:459، ط: سعید)

وفیہ ایضا:

"في اللباب: الفقير الآفاقي إذا وصل إلى ميقات فهو كالمكي قال شارحه أي حيث لايشترط في حقه إلا الزاد والراحلة إن لم يكن عاجزاً عن المشي، وينبغي أن يكون الغني الآفاقي كذلك إذا عدم الركوب بعد وصوله إلى أحد المواقيت فالتقييد بالفقير لظهور عجزه عن المركب."

(‌‌كتاب الحج، ج:2، ص،460، ط: سعید)

وفیہ ایضا :

" وأفتى سيدي عبد الغني النابلسي بخلافه وألف فيه رسالة لأنه في هذا العام لايمكنه الحج عن نفسه لأن سفره بمال الآمر فيحرم عن الآمر ويحج عنه، وفي تكليفه بالإقامة بمكة إلى قابل ليحج عن نفسه ويترك عياله ببلده حرج عظيم، وكذا في تكليفه بالعود وهو فقير حرج عظيم أيضاً.وأما ما في البدائع فإطلاقه الكراهة المنصرفة إلى التحريم يقتضي أن كلامه في الصرورة الذي تحقق الوجوب عليه من قابل كما يفيده ما مر عن الفتح، نعم قدمنا أول الحج عن اللباب وشرحه أن الفقير الآفاقي إذا وصل إلى ميقات فهو كالمكي في أنه إن قدر على المشي لزمه الحج."

(‌‌كتاب الحج، ج:2، ص،460، ط: سعید)

آپ کے مسائل اور ان کا حل میں ہے:

سوال:"اگر کوئی شخص ماہِ حج میں داخل  ہوجائے یعنی رمضان المبارک میں عمرے کے لیے جائے اور شوال کا مہینہ شروع ہوجائےتو کیا اس شخص پر حج لازم ہوگا؟اگر اس شخص نے پہلے حج کیا ہو ا ہو تو کیا حکم ہے؟اور اگر حج نہ کیا ہو تو کیا حکم ہے؟"

جواب:"اگر حج کرچکا ہے تو دوبارہ حج فرض نہیں، اور اگر نہیں کیا تو اس پر حج فرض ہے، بشرطیکہ یہ حج تک وہاں رہ سکتا ہویا واپس آکر دوبارہ جانے اور حج کرنے کی استطاعت رکھتا ہو، دونوں شرطوں میں سے کوئی ایک بھی نہ پائی جائے تو اس پر حج فرض نہیں۔"

(حج وعمرہ کی فرضیت، ج:5، ص:242، ط:مکتبۃ لدھیانوی)

فتاوی فریدیہ میں ہے:

سوال:"کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص سعودی عرب گیا تھا اس نے شوال میں چند عمرے بھی کئے ، پندرہ شوال کو کاغذات کی وجہ سے حکومت سعودیہ نے اسے گرفتار کرکے واپس وطن بھیج دیا اور حج کی سعادت سے محروم رہا، کیا اب اس شخص پر حج باقی ہے یعنی اس پر فرضیت آئی ہے؟بینوا توجروا۔"

جواب:"چونکہ اس شخص نے نہ احرام باندھا ہے اور نہ اہلِ جدہ کے حج کے روانگی کے وقت تک رہاہے، لہذا اس شخص پر حج فرض نہیں ہوا ہے۔"

(کتاب الحج ، باب العمرۃ، عمرہ کرنے والے پر حج کی عدم فرضیت کا مسئلہ، ج:4، ص:331، ط:دار العلوم حقانیہ)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144509100364

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں