بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شرابی ، سود خوراور بے نمازی شخص کی نماز جنازہ پڑھنے کا حکم


سوال

ایک شخص شرابی ، سود خوراور بے نمازی ہے، اور زندگی کے آخری ایام میں وہ بیمار تھا واللہ اعلم توبہ کی یا نہیں؟ میں وفات پر تعزیت کر آتا ہوں لیکن ایک شخص شرابی سودخور بے نمازی ہے، ایسے شخص کا جنازہ پڑھنے پر دل آمادہ نہیں ہوتا،  میں خود گناہ گار ہوں ،اللہ مجھے معاف کرے اگر میں جنازہ میں شرکت نا کروں؟ تو ایسا کرنا درست ہے یا نہیں ؟ 

جواب

واضح رہے کہ جو شخص شرابی ، سود خوراور بے نمازی ہے، لیکن نماز کا انکار نہ کرتا ہو تو وہ سخت گناہ گار اور فاسق ہونے کے باوجود دائرۂ اسلام سے خارج نہیں ہوتا ہے؛ اس لیے بے نمازی شخص کا اگر انتقال ہوجائے تو اس کی نمازِ جنازہ بھی عام مسلمان کی طرح پڑھی جائے گی، اور جنازہ میں شریک ہونے والوں کو ثواب ملے گا اور ثواب کی نیت سے شامل ہوجائیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وهي فرض على كل مسلم مات خلا) أربعة (بغاة، وقطاع طريق) ... (وكذا) أهل عصبة و (مكابر في مصر ليلًا بسلاح وخناق) خنق غير مرة فحكمهم كالبغاة. (من قتل نفسه) ولو (عمدًا يغسل ويصلى عليه) به يفتى، وإن كان أعظم وزرًا من قاتل غيره. ... (لا) يصلى على (قاتل أحد أبويه) إهانة له، وألحقه في النهر بالبغاة."

(كتاب الصلاة،‌‌باب صلاة الجنازة،٢١٠/٢،ط : دار الفكر)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"و شرطها إسلام  الميت و طهارته ما دام الغسل ممكنًا و إن لم يمكن بأن دفن قبل الغسل و لم يمكن إخراجه إلا بالنبش تجوز الصلاة على قبره للضرورة و لو صلى عليه قبل الغسل ثم دفن تعاد الصلاة لفساد الأولى، هكذا في التبيين. و طهارة مكان الميت ليست بشرط، هكذا في المضمرات. و يصلى على كل مسلم مات بعد الولادة صغيرًا كان أو كبيرًا ذكراً كان أو أنثى حرًّا كان أو عبدًا إلا البغاة و قطاع الطريق و من بمثل حالهم."

‌‌[کتاب الصلاة، الفصل الخامس في الصلاة على الميت، ١٦٣/١، ط : المطبعة الكبرى الأميرية]

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504100682

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں