بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شبِ براءت میں کون سا عمل بہتر ہے؟


سوال

شبِ براءت میں کون سا عمل بہتر ہے ؟ اور کن چیزوں سے اجتناب کرنا چاہیے ؟

جواب

شعبان کی پندرہویں رات ”شبِ برأت“ کہلاتی ہے، یعنی وہ رات جس میں مخلوق کوگناہوں سے بری کردیاجاتاہے۔تقریبًا دس صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے اس رات کے متعلق احادیث منقول ہیں،  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں:

" شعبان کی پندرہویں شب میں میں نے نبی کریم ﷺ کواپنی آرام گاہ پرموجود نہ  پایا تو تلاش میں نکلی، دیکھاکہ آپ "جنت البقیع" میں ہیں ... پھرآپ ﷺ  نے  مجھ سے فرمایاکہ آج شعبان کی پندرہویں رات ہے ،اس رات میں اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیاپرنزول فرماتاہے اور قبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعدادسے بھی زیادہ گناہ گاروں کی بخشش فرماتاہے"۔

اسی طرح ایک روایت میں ہے:

"اس رات میں تمام مخلوق کی مغفرت کردی جاتی ہے سوائے سات اشخاص کے، وہ یہ ہیں:مشرک،والدین کانافرمان،کینہ پرور،شرابی،قاتل،شلوارکوٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا اورچغل خور،ان سات افرادکی اس عظیم رات میں بھی مغفرت نہیں ہوتی، جب تک کہ یہ اپنے جرائم سے توبہ نہ کرلیں"۔

بعض روایات میں "قطع رحمی کرانے والے" اور بعض میں "زانی" کا بھی ذکر ہے کہ ان کی بھی بخشش نہیں ہوتی۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں منقول ہے کہ :

"اس رات میں عبادت کیاکرواوردن میں روزہ رکھاکرو،اس رات سورج غروب ہوتے ہی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اوراعلان ہوتاہے کون ہے جو گناہوں کی بخشش کروائے؟کون ہے جورزق میں وسعت طلب کرے؟کون مصیبت زدہ ہے جومصیبت سے چھٹکاراحاصل کرناچاہتاہو؟ ۔۔۔ یہاں تک کہ فجر طلوع ہوجاتی ہے۔"

ان احادیثِ کریمہ اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم اوربزرگانِ دین رحمہم اللہ  کے عمل سے  اس رات میں تین کام ثابت ہیں:

1- قبرستان جاکرمردوں کے  لیے ایصالِ ثواب اورمغفرت کی دعا۔لیکن یادرہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ساری حیاتِ مبارکہ میں صرف ایک مرتبہ شبِ برأت میں جنت البقیع جاناثابت ہے، اس لیے اگرکوئی شخص زندگی میں ایک مرتبہ بھی اتباعِ سنت کی نیت سے چلاجائے تو اجر و ثواب کاباعث ہے۔لیکن پھول پتیاں، چادر چڑھاوے، اور چراغاں کا اہتمام کرنا اور ہرسال  جانے کو لازم سمجھنا اس کوشب برأت کے اعمال میں سمجھنا ، ٹھیک نہیں ہے۔جو چیزنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جس درجے میں ثابت ہے اس کواسی درجہ میں رکھنا چاہیے، اس کانام اتباع اوردین ہے۔

۲۔اس رات میں نوافل،تلاوت،ذکرواذکارکااہتمام کرنا۔ یہ واضح رہے کہ نفل  عبادت  میں تنہائی مطلوب ہے، یہ خلوت کی عبادت ہے، اس کے ذریعہ انسان اللہ کاقرب حاصل کرتاہے؛ لہذانوافل وغیرہ تنہائی میں اپنے گھرمیں اداکرکے اس موقع کوغنیمت جانیں۔نوافل کی جماعت اورمخصوص طریقہ اپنانادرست نہیں ہے۔ یہ فضیلت والی راتیں شوروشغب اورمیلے، اجتماع منعقدکرنے کی راتیں نہیں ہیں، بلکہ گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کراللہ سے تعلقات استوارکرنے کے قیمتی لمحات ہیں، ان کوضائع ہونے سے بچائیں۔

3- شعبان کی پندرہ تاریخ کو دن میں روزہ رکھنابھی مستحب ہے، ایک تواس بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے اور دوسرا یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمومًا ہرماہ ایامِ بیض (۱۳،۱۴،۱۵) کے روزوں کااہتمام فرماتے تھے،لہذااس نیت سے روزہ رکھاجائے تو موجبِ اجر و ثوب ہوگا۔ نیز نبی کریم ﷺ شعبان المعظم کے مہینے میں کثرت سے روزے رکھتے تھے، لہٰذا اس مہینے میں جتنے ہوسکیں روزے رکھنے چاہییں، البتہ جس کا معمول روزے رکھنے کا نہ ہو اس کے لیے  شعبان المعظم کے دوسرے نصف حصے میں روزے نہ رکھنا زیادہ بہتر ہے، خاص طور پر شعبان کی تیس تاریخ (یوم الشک) میں روزہ نہ رکھے، الا یہ کہ شعبان کی تیس تاریخ ایسے دن میں آجائے جس میں کسی کا روزے کا معمول ہو، مثلًا پیر یا جمعرات کا دن۔ 

باقی اس رات میں پٹاخے  پھاڑنا،آتش بازی کرنا اورحلوے کی رسم کا اہتمام کرنا یہ سب خرافات اوراسراف میں شامل ہیں۔شیطان ان فضولیات میں انسان کومشغول کرکے اللہ کی مغفرت اورعبادت سے محروم کردیناچاہتاہے اوریہی شیطان کااصل مقصدہے۔

بہر حال اس رات کی فضیلت بے اصل نہیں ہے اور سلفِ صالحین نے اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھا یا ہے۔

مزیدتفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں:فتاویٰ بینات،جلد :اول،صفحہ:۵۵۲تا۵۵۷،مطبوعہ:مکتبہ بینات جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200617

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں