بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سید کا زکوۃ لینے کا حکم


سوال

سید کے لیے زکوۃ کی رقم لینا درست نہیں لیکن کیا حالت مجبوری میں سید کے لیے زکوۃ لینے کی شرعا کوئی گنجائش نکل سکتی ہے؟ مثلا بچی کی شادی کے اخراجات کے لیے زکوۃ لے سکتے ہیں؟

جواب

سید کے لیے زکوۃ لینا شرعا جائز نہیں ہے۔ مجبوری اور غیر مجبوری دونوں کا حکم ایک ہی ہے۔ زکوۃ کے علاوہ نفلی صدقات وغیرہ سے اپنی ضرورت پوری کر لی جائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) لا إلى (بني هاشم) إلا من أبطل النص قرابته وهم بنو لهب، فتحل لمن أسلم منهم كما تحل لبني المطلب. ثم ظاهر المذهب إطلاق المنع، وقول العيني والهاشمي: يجوز له دفع زكاته لمثله صوابه لا يجوز نهر

(قوله: وبني هاشم إلخ) اعلم أن عبد مناف وهو الأب الرابع للنبي صلى الله عليه وسلم أعقب أربعةً وهم: هاشم والمطلب ونوفل وعبد شمس، ثم هاشم أعقب أربعةً، انقطع نسل الكل إلا عبد المطلب؛ فإنه أعقب اثني عشر، تصرف الزكاة إلى أولاد كل إذا كانوا مسلمين فقراء إلا أولاد عباس وحارث وأولاد أبي طالب من علي وجعفر وعقيل، قهستاني، وبه علم أن إطلاق بني هاشم مما لاينبغي؛ إذ لاتحرم عليهم كلهم، بل على بعضهم، ولهذا قال في الحواشي السعدية: إن آل أبي لهب ينسبون أيضاً إلى هاشم، وتحل لهم الصدقة. اهـ.

وأجاب في النهر بقوله: وأقول: قال في النافع بعد ذكر بني هاشم: إلا من أبطل النص قرابته يعني به قوله صلى الله عليه وسلم: «لا قرابة بيني وبين أبي لهب؛ فإنه آثر علينا الأفجرين»، وهذا صريح في انقطاع نسبته عن هاشم، وبه ظهر أن في اقتصار المصنف على بني هاشم كفاية، فإن من أسلم من أولاد أبي لهب غير داخل؛ لعدم قرابته، وهذا حسن جداً، لم أر من نحا نحوه، فتدبره. اهـ‘‘. 

(قوله: إطلاق المنع إلخ) يعني سواء في ذلك كل الأزمان وسواء في ذلك دفع بعضهم لبعض ودفع غيرهم لهم."

(کتاب الزکوۃ،باب المصارف ج نمبر ۲ ص نمبر۳۵۰،ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100786

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں