سات سال پہلے ایک صاحب مجھ سے ادھار مال لے کر گئے اور رقم ادا نہیں کر رہے تھے، ہم ایک سال تک تقاضا کرتے رہے لیکن وہ ٹال مٹول کرتے رہے، اب انہوں نے 70 فیصد رقم ادا کی ہے، اب ہمیں اس رقم پر زکات کس حساب سے دینی ہوگی؟
صورت مسئولہ میں جب آپ اب تک ہر سال صاحبِ نصاب رہے ہیں تو جو رقم وصول ہوئی ہے،اس میں گزشتہ سالوں کی زکات ادا کرنا لازم ہے؛ مثلاً قرض پر مذکورہ رقم دینے کے بعد آپ کی زکات کی سالانہ تاریخ سات مرتبہ گزر چکی ہے اور جو رقم وصول ہوئی ہے وہ ایک لاکھ روپے ہیں تو ایک لاکھ روپے پر سات سال کی زکات ادا کرنی ہے جس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے سال کی زکات میں ایک لاکھ روپے کا ڈھائی فیصد یعنی 2,500 روپے زکات ادا کرنا لازم ہے، پھر دوسرے سال کے لیے بقیہ 97,500 روپے کا ڈھائی فیصد یعنی 2,437.5 روپے زکات دینا لازم ہے، اسی ترتیب پر سات سال کی زکات کا حساب ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصاباً وحال الحول، لكن لا فوراً بل (عند قبض أربعين درهماً من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهماً يلزمه درهم.
(قوله: عند قبض أربعين درهماً) قال في المحيط؛ لأن الزكاة لاتجب في الكسور من النصاب الثاني عنده ما لم يبلغ أربعين للحرج، فكذلك لايجب الأداء ما لم يبلغ أربعين للحرج. وذكر في المنتقى: رجل له ثلثمائة درهم دين حال عليها ثلاثة أحوال فقبض مائتين، فعند أبي حنيفة يزكي للسنة الأولى خمسة وللثانية والثالثة أربعة أربعة من مائة وستين، ولا شيء عليه في الفضل؛ لأنه دون الأربعين. اهـ."
(2/ 305، کتاب الزکاۃ،باب زکاۃ المال، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144406101549
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن