بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سرکاری ملازمین کی تن خواہ سے فنڈز کے لیے کٹوتی اور اس پر ملنے والی اضافی رقم کا حکم


سوال

میں ایک ہائی اسکول کا ٹیچر ہوں، مجھے ماہانہ جو تنخواہ ملتی ہے، اس میں سے چار ہزار کٹوتی ہوتی ہے، جو بعد میں اضافہ کے ساتھ پینشن کی صورت میں ملتی ہے، اب پوچھنا یہ ہے کہ اضافی رقم میرے لیے لینا حلال ہے کہ نہیں؟ جب کہ حکومت کی طرف سے مذکورہ پیسے لینے اور نہ لینے کا اختیار ہوتا ہے، راہ نمائی فرما کر ثواب دارین حاصل کریں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں ملازم کی تنخواہ سے ماہانہ مذکورہ کٹوتی ادارے کی طرف سے اگر جبراً ہو تو اس صورت میں سائل کو اپنی جمع شدہ رقم اور اس کے ساتھ جس قدر رقم بھی ریٹائرمنٹ کے بعد جی پی فنڈ، گریجیوٹی کی مد میں اضافی طور پر ملے وہ تمام رقم ملازم کی تنخواہ کا حصہ ہے، ملازم کے  لیے اضافی رقم لینا جائز اور درست ہے ۔

البحر الرائق میں  ہے :

"(قوله: بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن) يعني لايملك الأجرة إلا بواحد من هذه الأربعة، والمراد أنه لايستحقها المؤجر إلا بذلك، كما أشار إليه القدوري في مختصره، لأنها لو كانت دينًا لايقال: إنه ملكه المؤجر قبل قبضه، وإذا استحقها المؤجر قبل قبضها، فله المطالبة بها وحبس المستأجر عليها وحبس العين عنه، وله حق الفسخ إن لم يعجل له المستأجر، كذا في المحيط. لكن ليس له بيعها قبل قبضها".

(كتاب الإجارة، ج: 7، ص: 300، ط: دارالكتاب الإسلامي)

جواہر الفقہ میں ہے:

"جبری پراویڈنٹ فنڈ پہ سود کے نام پر جو رقم ملتی ہے  ،وہ شرعا سود نہیں  بلکہ اجرت(تنخواہ)ہی کا ایک حصہ ہے اس کا لینا اور اپنے استعمال میں لانا جائز ہے  ، البتہ پراویڈنٹ فنڈ میں رقم اپنے اختیار سے کٹوائی جائے تو اس میں تشبہ بالربوا بھی ہے اور ذریعہ  سود بنا لینے کا خطرہ بھی ہے ، اس لیے اس سے اجتناب کیا جائے."

(پراویڈنٹ فنڈپر زکوٰۃ اور سود کا مسئلہ ،ج:3،ص:258،ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506100640

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں