بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ساڑھے چھ تولہ سونے پر زکات کا حکم


سوال

ساڑھے چھ تولہ سونے پر زکات کی  کتنی رقم بنتی ہے؟

جواب

اگر کسی کی ملکیت میں صرف سوناہو اس کے علاوہ نقدی ، چاندی یا مالِ تجارت میں سے کچھ بھی نہ ہو تو  زکوۃ لازم ہونے کےلیے ساڑھے سات تولہ سونا ہونا ضروری ہے، اگر کسی کے پاس ساڑھے سات تولہ سے کم  سونا ہو   تو اس پر زکاۃ واجب نہیں ہوتی۔

 لیکن اگر  سونے  کے ساتھ  کوئی اور قابلِ زکاۃ مال (نقدی، چاندی یا مالِ تجارت )میں سے بھی کچھ ملکیت میں موجود ہو، تو  پھر  صرف سونے کے نصاب(ساڑھے سات تولہ ) کا اعتبار نہیں کیا جائے گا، بلکہ ایسی صورت میں چاندی کے نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی) کی قیمت کا اعتبار کیا جائے گا، لہٰذا اگر سونے اور دوسرے قابلِ زکاۃ مال کو ملا کر مجموعی قیمت ساڑے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہوجائے تو اس پر   قمری مہینوں کے اعتبار سے سال مکمل ہونے پر زکوٰۃ  واجب هو گی۔

ملحوظ رہے کہ ایک سے زیادہ مال جمع ہونے کی صورت میں چاندی کے نصب کا اعتبار اس لیے کیا گیا کہ زکاۃ کے وجوب میں فقراء کی حاجت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، جس میں فقراء کا فائدہ ہو فقہاء کرام  نے اس کو اختیار کیا ہے، اور موجودہ دور میں چاندی کا نصاب کم ہے، لہٰذا زکاۃ واجب ہونے کی صورت میں فقراء کا فائدہ ہوگا۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 18):

"فأما إذا كان له ذهب مفرد فلا شيء فيه حتى يبلغ عشرين مثقالا فإذا بلغ عشرين مثقالا ففيه نصف مثقال؛ لما روي في حديث عمرو بن حزم والذهب ما لم يبلغ قيمته مائتي درهم فلا صدقة فيه فإذا بلغ قيمته مائتي درهم ففيه ربع العشر  وكان الدينار على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم مقوما بعشرة دراهم.
وروي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال لعلي: «ليس عليك في الذهب زكاة ما لم يبلغ عشرين مثقالا فإذا بلغ عشرين مثقالا ففيه نصف مثقال» وسواء كان الذهب لواحد أو كان مشتركا بين اثنين أنه لا شيء على أحدهما ما لم يبلغ نصيب كل واحد منهما نصابا عندنا، خلافاً للشافعي".

وفیه ایضاً: (2/ 19):

"فأما إذا كان له الصنفان جميعاً فإن لم يكن كل واحد منهما نصاباً بأن كان له عشرة مثاقيل ومائة درهم، فإنه يضم أحدهما إلى الآخر في حق تكميل النصاب عندنا ... (ولنا) ما روي عن بكير بن عبد الله بن الأشج أنه قال: مضت السنة من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم بضم الذهب إلى الفضة والفضة إلى الذهب في إخراج الزكاة ؛ ولأنهما مالان متحدان في المعنى الذي تعلق به وجوب الزكاة فيهما وهو الإعداد للتجارة بأصل الخلقة والثمنية، فكانا في حكم الزكاة كجنس واحد ؛ ولهذا اتفق الواجب فيهما وهو ربع العشر على كل حال وإنما يتفق الواجب عند اتحاد المال.
وأما عند الاختلاف فيختلف الواجب وإذا اتحد المالان معنىً فلا يعتبر اختلاف الصورة كعروض التجارة، ولهذا يكمل نصاب كل واحد منهما بعروض التجارة ولا يعتبر اختلاف الصورة، كما إذا كان له أقل من عشرين مثقالاً وأقل من مائتي درهم وله عروض للتجارة ونقد البلد في الدراهم والدنانير سواء فإن شاء كمل به نصاب الذهب وإن شاء كمل به نصاب الفضة، وصار كالسود مع البيض، بخلاف السوائم؛ لأن الحكم هناك متعلق بالصورة والمعنى وهما مختلفان صورة ومعنى فتعذر تكميل نصاب أحدهما بالآخر."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100675

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں