بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سربراہ کا اولاد کی طرف سے قربانی کی نیت کرنا


سوال

گھر کا سربراہ قربانی کرتے وقت اپنی ماتحت اولاد کی طرف سے قربانی کی نیت کر سکتا ہے؟  اور کیا اس کی اس نیت سے اولاد سے قربانی کا فریضہ سر انجام ہو جائے گا؟

جواب

اگر ایک گھر میں کئی افراد صاحبِ نصاب ہوں اور بالغ ہوں  اور گھر کا سربراہ اُن کو بتا کر  اُن سب کی طرف سے الگ الگ قربانی کرتا ہے تو ایسا کرنا درست ہے  اور سب کی قربانی درست ہو جائے گی، لیکن   گھر کے سربراہ کی طرف سے کی جانے والی ایک ہی قربانی سب کی طرف سے کافی نہیں ہوگی ؛ اس لیے کہ   ہر صاحبِ نصاب عاقل بالغ مسلمان کے ذمے   مستقل قربانی کرنا واجب ہے، لہذا  گھر میں متعدد صاحبِ نصاب افراد ہونے کی صورت میں تمام گھر والوں کی طرف سے گھر کے سربراہ کی  ایک قربانی کرنا کافی نہیں ہے، ہاں! اگر وہ  ہر ایک فرد کی طرف سے الگ الگ حصے میں قربانی کی نیت کرتا ہے  اور اولاد کو بھی  بتادیتا ہے تو یہ طریقہ درست ہے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (5/ 70):

"وأما قدره فلا يجوز الشاة والمعز إلا عن واحد وإن كانت عظيمةً سمينةً تساوي شاتين مما يجوز أن يضحى بهما؛ لأن القياس في الإبل والبقر أن لا يجوز فيهما الاشتراك؛ لأن القربة في هذا الباب إراقة الدم وأنها لا تحتمل التجزئة؛ لأنها ذبح واحد، وإنما عرفنا جواز ذلك بالخبر فبقي الأمر في الغنم على أصل القياس.

فإن قيل: أليس أنه روي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى بكبشين أملحين أحدهما عن نفسه والآخر عمن لا يذبح من أمته فكيف ضحى بشاة واحدة عن أمته عليه الصلاة والسلام؟

(فالجواب) أنه عليه الصلاة والسلام إنما فعل ذلك لأجل الثواب؛ وهو أنه جعل ثواب تضحيته بشاة واحدة لأمته، لا للإجزاء وسقوط التعبد عنهم، ولا يجوز بعير واحد ولا بقرة واحدة عن أكثر من سبعة، ويجوز ذلك عن سبعة أو أقل من ذلك، وهذا قول عامة العلماء".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200639

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں