بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سمتِ قبلہ سے چار سے چھ ڈگری منحرف مسجد میں نماز کا حکم


سوال

 کراچی کے ایک علا قے  کی مسجد  میں گزشتہ چار سالوں سے نماز ادا کررہے ہیں ۔تین دن پہلے کچھ ساتھی بتا رہے تھے کہ مسجد میں قبلہ رخ کا مسئلہ ہے، تقریباً چار سے چھ ڈگری فرق ہے، مسجد کی انتظا میہ اور امام صاحب کو مسئلہ سے  آگاہ کیا توآن حضرات نے کہا کہ کوئی فرق  نہیں پڑتا نماز  میں۔  ہماری رہنمائی  فرمائیں گزشتہ نماز وں کے بارے میں اور مزید کہ اس مسجد میں نماز پڑھنے کے بارے میں ۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں  مذکورہ مسجد عینِ قبلہ  سے   چار  سے  چھ ڈگری منحرف(ہٹی ہوئی)ہے،  تو   اس  درجہ  انحراف سے   استقبال ِ کعبہ میں خلل نہیں پڑتا ؛کیوں کہ مکہ مکرمہ سے  باہر کی مساجد میں پنتالیس درجہ تک انحراف کی   گنجائش ہے؛  لہذا مذکورہ مسجد میں نماز  درست ہے۔ استقبالِ قبلہ  کے اس معمولی  انحراف   سے نماز فاسد نہیں ہوگی۔البتہ جب انحراف کا علم ہے تو پھر انحراف کے ساتھ نماز نہیں پڑھنی چاہیے، صفیں عین قبلہ کے مطابق بچھائی جائیں،  اگر چہ تعمیر پھر کسی وقت درست کی جائے ۔

 

 حضرت مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"اس مسئلہ کے متعلق مذہبِ مختار حنفیہ کا یہ ہے: کہ جو شخص بیت اللہ شریف کے سامنے ہو اس کے لئے عینِ کعبہ کا استقبال فرض ہے اور جو اس سے غائب ہو اس کے ذمہ جہتِ کعبہ کا استقبال فرض ہے، عینِ کعبہ کا نہیں ۔۔۔ پھر جہتِ قبلہ کے معنی یہ ہے کہ ایک خط جو کعبہ پر گزرتا ہو جنوب و شمال پر منتہی ہوجاوے اور نمازی کے وسط جبہہ سے ایک خط ِ مستقیم نکل کر اس سے پہلے خط سے اس طرح  تقاطع کرے  کہ اس موقع  ِ تقاطع پر دو  زوایہ  قائمہ  پیدا ہوجاویں، وہ قبلہ مستقیم ہے اور اگر نمازی اتنا منحرف ہو کہ وسطِ جبہہ سے نکلنے والا خط  تقاطع کرکے  زوایہ قائمہ پیدا نہ کرے   بلکہ حادہ یا منفرجہ پیدا کرے ، لیکن وسطِ جبہہ کو چھوڑ کر پیشانی  کے اطراف سے نکلنے والا خط زوایہ قائمہ پیدا کردے تو وہ انحراف قلیل ہے، اس سے نماز صحیح ہوجاوے گی۔ اور اگر پیشانی کی کسی طرف سے بھی  ایسا خط نہ نکل سکے ، جو خط ِ مذکورہ پر زاویہ قائمہ پیدا کردے تو  وہ انحراف ِکثیر ہے، اس سے نماز  نہیں ہوگی۔ اور علمائے ہیئت وریاضی نے انحراف ِ قلیل وکثیر کی تعیین اس طرح کی ہے کہ پنتالیس درجہ تک انحراف  ہو تو قلیل ہے، اس سے زائد ہو تو کثیر، مفسدِ صلاةہے"۔

(جواہر الفقہ: کتاب الصلاة، سمت ِ قبلہ(2/356)،ط۔ مکتبہ دار العلوم کراچی، طبع جدید:1341هـ = 2010م)

فتاوی شامی میں ہے:

"فاعلم: أولا أن السطح في اصطلاح علماء الهندسة ما له طول وعرض لا عمق، والزاوية القائمة هي إحدى الزاويتين المتساويتين الحادثتين عن جنبي خط مستقيم قام على خط مستقيم هكذا قائمة قائمة، وكلتاهما قائمتان، ويسمى الخط القائم على الآخر عمودًا، فإن لم تتساويا فما كانت أصغر من القائمة تسمى زاوية حادّة، وما كانت أكبر تسمى زاوية منفرجة هكذا حادة منفرجة. ثم اعلم: أنه ذكر في المعراج عن شيخه أن جهة الكعبة هي الجانب الذي إذا توجه إليه الإنسان يكون مسامتا للكعبة أو هوائها تحقيقًا أو تقريبًا، ومعنى التحقيق: أنه لو فرض خط من تلقاء وجهه على زاوية قائمة إلى الأفق يكون مارّا على الكعبة أو هوائها.ومعنى التقريب: أن يكون منحرفًا عنها أو عن هوائها بما لا تزول به المقابلة بالكلية، بأن يبقى شيء من سطح الوجه مسامتًا لها أو لهوائها. وبيانه أن المقابلة في مسافة قريبة تزول بانتقال قليل من اليمين أو الشمال مناسب لها، وفي البعيدة لا تزول إلا بانتقال كثير مناسب لها فإنه لو قابل إنسان آخر في مسافة ذراع مثلا تزول تلك المقابلة بانتقال أحدهما يمينًا بذراع، وإذا وقعت بقدر ميل أو فرسخ لا تزول إلا بمائة ذراع أو نحوها، ولما بعدت مكة عن ديارنا بعدًا مفرطا تتحقق المقابلة إليها في مواضع كثيرة في مسافة بعيدة، فلو فرضنا خطا من تلقاء وجه مستقبل الكعبة على التحقيق في هذه البلاد ثم فرضنا خطا آخر يقطعه على زاويتين قائمتين من جانب يمين المستقبل وشماله لا تزول تلك المقابلة والتوجه بالانتقال إلى اليمين والشمال على ذلك الخط بفراسخ كثيرة، فلذا وضع العلماء القبلة في بلاد قريبة على سمت واحد اهـ ونقله في الفتح والبحر وغيرهما وشروح المنية وغيرها، وذكره ابن الهمام في زاد الفقير. وعبارة الدرر هكذا: وجهتها أن يصل الخط الخارج من جبين المصلي إلى الخط المارّ بالكعبة على استقامة بحيث يحصل قائمتان. أو نقول: هو أن تقع الكعبة فيما بين خطين يلتقيان في الدماغ فيخرجان إلى العينين كساقي مثلث، كذا قال النحرير التفتازاني في شرح الكشاف، فيعلم منه أنه لو انحرف عن العين انحرافًا لا تزول منه المقابلة بالكلية جاز، ويؤيده ما قال في الظهيرية: إذا تيامن أوتياسر تجوز لأن وجه الإنسان مقوس لأن عند التيامن أو التياسر يكون أحد جوانبه إلى القبلة اهـ كلام الدرر، وقوله في الدرر: "على استقامة" متعلق بقوله يصل لأنه لو وصل إليه معوجًا لم تحصل قائمتان بل تكون إحداهما حادة، والأخرى منفرجة كما بينا."

(حاشية ابن عابدين على الدر المختار: كتاب الصلاة، باب شروط الصلاة، مبحث استقبال القبلة (1/428)،ط.سعيد، كراتشي)

محدث العصر حضرت  مولانا محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"التاسعة: أنه يجوز تحمل الانحراف اليسير في المحاريب بأن لاتتبدل الجهة بالكلية وتبقى مسامتة جهة الكعبة".

(بغية الأريب في مسائل القبلة والمحاريب:الفصل الرابع في أنه هل يجب تعيين القبلة بالأدلة.. (ص: 68)،ط. مجلس الدعوة وزالتحقيق الإسلامي، الطبعة: 1437هـ = 20016م) 

وفيہأيضًا:في الفصل الخامس في: أنه يجوز للغائب عن الكعبة أن يصلي منحرفًا عن الجهة المتعينة(ص: 91):

"فالمحقق فيه عندنا على ما أدى إليه نظري القاصر: أن الانحراف اليسير في التيامن والتياسر مما لايمنع صحة الاقتداء".

فقط، واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200289

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں