بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سالی سے نکاح کرنا


سوال

کیا مرد اپنی بیوی کے ہوتے ہوئے اپنی سالی کو نکاح میں لے سکتا ہے؟  سالی کو طلاق کی صورت میں   یا اس کی محبت میں گرفتار ہونے کی صورت میں یا خاوند کے فوت ہونے کی صورت میں؟

جواب

کسی بھی مسلمان کے لیے بیک وقت دو حقیقی بہنوں کو ایک نکاح میں جمع کرنا یا بیوی کی عدت میں اس کی بہن سے نکاح کرنا ہرگز جائز نہیں، ایک بہن کے نکاح میں ہوتے ہوئے اس کی بہن سے نکاح کرنا قطعاً حرام ہے،  قرآنِ مجید میں ہے:

﴿ وَأَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْسَلَفَ﴾ [النساء : 24]

ترجمہ: اور یہ کہ (حرام ہیں تم پر کہ ) تم دو بہنوں کو (رضاعی ہوں یا نسبی) ایک ساتھ رکھو ،لیکن جو  (قرآن  کا حکم آنے سے) پہلے ہوچکا۔

اسی طرح احادیثِ  مبارکہ میں بھی صراحتًا اس کی ممانعت موجود ہے۔

لہذا بیوی کے نکاح میں ہوتے ہوئے سالی سے نکاح کرنا ناجائز اور حرام ہے، اور یہ نکاح منعقد بھی نہیں ہوگا، سالی نامحرم ہے، جس طرح دیگر نامحرم عورتوں سے پردہ ہے، اسی طرح سالی سے بھی پردہ کرنا لازم ہے، اس سے  بلاضرورت بات چیت کرنا، یا ملاقات وغیرہ کرنا ناجائز اور گناہ ہے۔

الفتاوى الهندية (1/ 277):

’’(وأما الجمع بين ذوات الأرحام) فإنه لا يجمع بين أختين بنكاح ولا بوطء بملك يمين سواء كانتا أختين من النسب أو من الرضاع، هكذا في السراج الوهاج. والأصل أن كل امرأتين لو صورنا إحداهما من أي جانب ذكراً؛ لم يجز النكاح بينهما برضاع أو نسب لم يجز الجمع بينهما، هكذا في المحيط. فلايجوز الجمع بين امرأة وعمتها نسباً أو رضاعاً، وخالتها كذلك ونحوها.‘‘

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210201107

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں