بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

سجدہ سے عاجز شخص کرسی پر نماز پڑھے تو صف میں کرسی کس طرح رکھے؟


سوال

جماعت کے دوران مقتدی سجدہ کرنے سے معذور ہے، وہ قیام کی طاقت رکھتا ہے، جماعت کے دوران وہ اپنی کرسی پر بیٹھا رہے گا یا کھڑا ہو گا؟ اگر وہ کھڑا ہو گا تو وہ صف کی سیدھ میں کھڑا ہو گا یا کہ کرسی کے آگے یعنی صف سے ایک فٹ آگے؟وہ کرسی کی اگلی ٹانگیں صف کے برابر رکھے گا یا پچھلی ٹانگیں؟

جواب

اگر کسی شخص کو ایسا عذر ہو کہ جس کی وجہ سے وہ  زمین پر بیٹھ کر  سجدہ  کرنے پر قادر نہ ہو تو ایسی صورت میں  اس کے  لیے  اشارہ سے  زمین پر بیٹھ کر اور کرسی پر بیٹھ کر دونوں طرح سے نماز پڑھنا جائز ہوگا، خواہ نماز انفرادی ہو یا باجماعت، البتہ  اگر زمین پر بیٹھنے کی قدرت ہو تو  زمین پر بیٹھ  کر اشارہ سے سجدہ کر کے نماز ادا کرنا زیادہ بہتر اور افضل ہے، اور اگر اس میں مشقت ہو تو کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا بھی جائز ہے، نیز جو شخص زمین پر سجدہ کرنے کی قدرت نہیں رکھتا، اس سے قیام کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے اور ایسی صورت میں اس کے لیے قیام ضروری نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے مکمل نماز   بیٹھ کر پڑھنا اور اشارے سے  رکوع  اور  سجدہ کے ساتھ نماز ادا کرنا زیادہ بہترہے، اور  سجدہ میں رکوع کی بنسبت ذرا  زیادہ جھکنا ہوگا۔

اور کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنے والے شخص کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ کرسی کا پچھلا پایہ صف کی لکیر پر رکھے،اس صورت میں کرسی پر نماز پڑھنے والا نہ تو بقیہ نمازیوں سے آگے ہو گا اور نہ ہی پیچھے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 97):

"(وإن تعذرا) ليس تعذرهما شرطاً بل تعذر السجود كاف (لا القيام أومأ) بالهمز (قاعداً) وهو أفضل من الإيماء قائماً؛ لقربه من الأرض، (ويجعل سجوده أخفض من ركوعه) لزوماً (ولا يرفع إلى وجهه شيئاً يسجد عليه) فإنه يكره تحريماً (فإن فعل) بالبناء للمجهول ذكره العيني (وهو يخفض برأسه لسجوده أكثر من ركوعه صح) على أنه إيماء لا سجود إلا أن يجد قوة الأرض (وإلا) يخفض (لا) يصح؛ لعدم الإيماء.

(قوله: بل تعذر السجود كاف) نقله في البحر عن البدائع وغيرها. وفي الذخيرة: رجل بحلقه خراج إن سجد سال وهو قادر على الركوع والقيام والقراءة يصلي قاعداً يومئ؛ ولوصلى قائماً بركوع وقعد وأومأ بالسجود أجزأه، والأول أفضل؛ لأن القيام والركوع لم يشرعا قربةً بنفسهما، بل ليكونا وسيلتين إلى السجود. اهـ. قال في البحر: ولم أر ما إذا تعذر الركوع دون السجود غير واقع اهـ أي لأنه متى عجز عن الركوع عجز عن السجود نهر. قال ح: أقول على فرض تصوره ينبغي أن لا يسقط؛ لأن الركوع وسيلة إليه ولايسقط المقصود عند تعذر الوسيلة، كما لم يسقط الركوع والسجود عند تعذر القيام.... (قوله: أومأ قاعداً)؛ لأن ركنية القيام للتوصل إلى السجود فلايجب دونه ... (قوله: لقربه من الأرض) أي فيكون أشبه بالسجود، منح. 
(قوله: إلا أن يجد قوة الأرض) هذا الاستثناء مبني على أن قوله: ولايرفع إلخ شامل لما إذا كان موضوعاً على الأرض وهو خلاف المتبادر، بل المتبادر كون المرفوع محمولاً بيده أو يد غيره، وعليه فالاستثناء منقطع لاختصاص ذلك بالموضوع على الأرض، ولذا قال الزيلعي: كان ينبغي أن يقال إن كان ذلك الموضوع يصح السجود عليه كان سجوداً وإلا فإيماء اهـ وجزم به في شرح المنية. واعترضه في النهر بقوله وعندي فيه نظر؛ لأن خفض الرأس بالركوع ليس إلا إيماء، ومعلوم أنه لا يصح السجود بدون الركوع ولو كان الموضوع مما يصح السجود عليه. اهـ.
أقول: الحق التفصيل وهو أنه إن كان ركوعه بمجرد إيماء الرأس من غير انحناء وميل الظهر فهذا إيماء لا ركوع، فلايعتبر السجود بعد الإيماء مطلقاً وإن كان مع الانحناء كان ركوعاً معتبراً حتى إنه يصح من المتطوع القادر على القيام. فحينئذٍ ينظر إن كان الموضوع مما يصح السجود عليه كحجر مثلاً ولم يزد ارتفاعه على قدر لبنة أو لبنتين فهو سجود حقيقي فيكون راكعاً ساجداً لا مومئاً حتى إنه يصح اقتداء القائم به وإذا قدر في صلاته على القيام يتمها قائماً، وإن لم يكن الموضوع كذلك يكون مومئاً فلايصح اقتداء القائم به، وإذا قدر فيها على القيام استأنفها بل يظهر لي أنه لو كان قادراً على وضع شيء على الأرض مما يصح السجود عليه أنه يلزمه ذلك؛ لأنه قادر على الركوع والسجود حقيقةً، ولايصح الإيماء بهما مع القدرة عليهما بل شرطه تعذرهما، كما هو موضوع المسألة. (قوله: وإلا يخفض) أي لم يخفض رأسه أصلاً بل صار يأخذ ما يرفعه ويلصقه بجبهته للركوع والسجود أو خفض رأسه لهما، لكن جعل خفض السجود مساوياً لخفض الركوع لم يصح؛ لعدم الإيماء لهما أو للسجود".

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200320

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں