بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سجدہ میں اردو میں دعا مانگنا


سوال

سجدے میں کس قسم کی دعا کی جا سکتی ہے اور کس نماز کے سجدے میں دعا مانگنا جائز ہے؟ نیز مسنون دعا کا ترجمہ پڑھ کر دعا کی جا سکتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ نماز  میں عربی زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں دعا  مانگنے سے نماز فاسد ہوجائے گی۔

اور نفل نماز کے سجدے  میں یا التحیات ودرود شریف کے  بعد  اگر کوئی شخص کوئی دعا مانگنا چاہتا ہو تو اس کے جائز ہونے کی شرط یہ ہے کہ ایک تو وہ دعا عربی زبان میں مانگی جائے اور دوسری شرط یہ ہے کہ دعا میں  ایسی چیز  مانگی جائے جو چیز مخلوق سے نہ مانگی جاسکتی ہو، یعنی لوگوں کے کلام سے مشابہ نہ ہو۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں مسنون دعاؤں کا ترجمہ پڑھنا بھی جائز نہیں ہے، اس سے نماز فاسد ہو جائے گی۔

البحرالرائق میں ہے:

"(قوله: ودعا بما يشبه ألفاظ القرآن والسنة لا كلام الناس) أي بالدعاء الموجود في القرآن، ولم يردحقيقة المشابهة ؛ إذ القرآن معجز لا يشابهه شيء، ولكن أطلقها ؛ لإرادته نفس الدعاء ، لا قراء ة القرآن، مثل: ﴿ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا ﴾ [البقرة: 286] ﴿ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبِنَا ﴾[آل عمران: 8] ﴿ رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَلِوَالِدَيَّ ﴾ [نوح: 28] ﴿ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً ﴾ [البقرة: 201] إلى آخر كل من الآيات، وقوله: والسنة، يجوز نصبه عطفاً على ألفاظ أي دعا بما يشبه ألفاظ السنة، وهي الأدعية المأثورة، ومن أحسنها ما في صحيح مسلم: «اللهم إني أعوذ بك من عذاب جهنم ومن عذاب القبر ومن فتنة المحيا والممات ومن فتنة المسيح الدجال»، ويجوز جره عطفاً على القرآن أو ما أي دعا بما يشبه ألفاظ السنة أو دعا بالسنة، وقد تقدم أن الدعاء آخرها سنة ؛ لحديث ابن مسعود: «ثم ليتخير أحدكم من الدعاء أعجبه إليه فيدعو به». (1/ 349)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 521):

(ودعا) بالعربية، وحرم بغيرها نهر لنفسه وأبويه وأستاذه المؤمنين ... (بالأدعية المذكورة في القرآن والسنة. لا بما يشبه كلام الناس) اضطرب فيه كلامهم ولا سيما المصنف؛ والمختار كما قاله الحلبي أن ما هو في القرآن أو في الحديث لايفسد،  وما ليس في أحدهما إن استحال طلبه من الخلق لايفسد وإلا يفسد لو قبل قدر التشهد، وإلا تتم به ما لم يتذكر سجدة فلاتفسد بسؤال المغفرة مطلقًا ولو لعمي أو لعمرو، وكذا الرزق ما لم يقيده بمال ونحوه لاستعماله في العباد مجازًا.

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144205201131

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں